غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اقوامِ متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کے نگران ادارے ” “انروا” نے کہا ہے غزہ میں پانچ سال سے کم عمر کے 2700 سے زائد معصوم فلسطینی بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار مئی کے آخر میں درج کیے گئے اور یہ سب کچھ اس منظم قحط سالی کا نتیجہ ہے جو قابض اسرائیل کی ظالمانہ اور دانستہ پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔
“انروا” نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” پر جاری بیان میں کہا ہے کہ غزہ کے طول و عرض میں حالات مایوسی کی بدترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ بے یار و مددگار فلسطینیوں کو قابض اسرائیل کی جانب سے لگائے گئے محاصرے، بندشوں اور پابندیوں کے باعث مسلسل بھوک، بیماری اور پیاس کا سامنا ہے۔
ایجنسی نے واضح کیا کہ شمالی غزہ میں صرف ایک طبی مرکز ہی محدود پیمانے پر کام کر رہا ہے، جبکہ ایندھن کی قلت اس قدر شدت اختیار کر چکی ہے کہ تمام ذخائر خطرناک حد کو چھو چکے ہیں۔
اونروا نے عالمی برادری سے فوری مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی بنیادوں پر فوری مداخلت کرے اور غزہ تک انسانی امداد کی رسائی کو بحال کیا جائے تاکہ قحط، بیماری اور موت کی اس لہر کو روکا جا سکے جو قابض اسرائیل کی محاصرے کی پالیسی کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔
اس سے قبل، غزہ کی وزارتِ صحت نے خبردار کیا تھا کہ ایندھن کی کمی کے باعث کئی مرکزی ہسپتال بندش کے دہانے پر ہیں۔ یہ بحران قابض اسرائیل کی جانب سے 2 مارچ سے بارڈر کراسنگ کی بندش اور امدادی قافلوں کو روکنے کے بعد پیدا ہوا ہے۔
قابض اسرائیل کے اس سفاک محاصرے نے غزہ کو ایک کھلے قید خانے میں تبدیل کر دیا ہے جہاں نہ دوا دستیاب ہے، نہ غذا، نہ پینے کا صاف پانی اور نہ ہی زندگی کی بنیادی سہولیات۔
قابض اسرائیل نے امریکی پشت پناہی سے 7 اکتوبر سنہ2023ء سے غزہ پر جو بربریت مسلط کر رکھی ہے وہ اپنی نوعیت کی بدترین نسل کشی ہے۔ اب تک 1 لاکھ 82 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ بارہ ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں، لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں، اور سینکڑوں بچے بھوک سے تڑپ تڑپ کر جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
یہ سب کچھ دنیا کے سامنے ہو رہا ہے، لیکن عالمی ضمیر ابھی تک خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے۔ مظلوم فلسطینیوں کی فریادیں آج بھی عالم انسانیت سے پکار پکار کر انصاف مانگ رہی ہیں۔