رام اللہ –(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غرب اردن کے شمالی شہر جنین کے 20 سالہ نوجوان احمد سعید صالح طزازعہ نے قابض اسرائیل کی درندگی کا ایک اور خونی باب رقم کر دیا۔ مرکز اطلاعاتِ فلسطین کو موصولہ معلومات کے مطابق احمد طزازعہ نے اپنی زندگی کی آخری سانسیں قابض اسرائیل کی بدنامِ زمانہ جیل ’مجدو‘ میں لیں، جہاں وہ 6 مئی 2025ء سے قید تھے۔
ان کی شہادت کی اطلاع اتوار کو دی گئی، مگر کس حالات میں احمد کو شہید کیا گیا؟ اس بارے میں حسبِ معمول قابض اسرائیل نے کوئی تفصیل فراہم نہیں کی۔ ایک بار پھر ایک فلسطینی نوجوان کو خاموشی سے، ظلم کی تاریکی میں، چھین لیا گیا۔
بیان میں واضح کیا گیا کہ جیل ’مجدو‘ وہ مقام ہے جہاں کئی فلسطینی قیدی اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ یہی وہ جیل ہے جہاں جرب (سکیبیس) جیسے متعدی مرض نے قیدیوں کو نڈھال کر رکھا ہے، اور اسرائیلی جیل انتظامیہ نے اس بیماری کو ایک حیاتیاتی ہتھیار کی طرح استعمال کیا ہے تاکہ قیدیوں کو مزید اذیت دی جا سکے۔
یہ بیماری صرف ایک انفیکشن نہیں بلکہ جیل کی کوٹھڑیوں میں پھیلائی جانے والی دانستہ اذیت ہے، جسے قابض انتظامیہ قیدیوں کو جسمانی طور پر کمزور بنانے اور بالآخر موت کی طرف دھکیلنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
احمد طزازعہ کی شہادت کے بعد نسل کشی کے دوران جامِ شہادت نوش کرنے والے فلسطینی قیدیوں کی تعداد بڑھ کر 76 ہو گئی ہے۔ ان تمام شہداء کی شناخت ہو چکی ہے، تاہم درجنوں ایسے بھی ہیں جن کی جبری گمشدگی کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق، سنہ 1967ء سے اب تک 313 فلسطینی قیدی شہید ہو چکے ہیں۔
ہیومن رائٹس اداروں اور اسیران کلب نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ یہ اعداد و شمار اس حقیقت کو آشکار کرتے ہیں کہ قابض اسرائیل کی جیلیں قید خانوں سے زیادہ ’قتل خانے‘ بن چکی ہیں، جہاں موت آہستہ آہستہ، لمحہ بہ لمحہ، اذیت ناک انداز میں قیدیوں کا مقدر بنا دی گئی ہے۔