مقبوضہ بیت المقدس – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قابض اسرائیلی ریاست نے ایک اور بے رحم اقدام کے تحت مقبوضہ القدس کے علاقے ’الصوانہ‘ میں واقع ایک رہائشی عمارت کو منہدم کرنے کا حتمی نوٹس جاری کر دیا ہے۔ اس عمارت میں 17 فلسطینی خاندان مقیم ہیں، جنہیں محض تین دن کی مہلت دی گئی ہے کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ دیں، بصورت دیگر انہیں زبردستی بے گھر کر دیا جائے گا۔
القدس گورنری کی جانب سے جاری کردہ معلومات کے مطابق، قابض اسرائیلی فوج نے بدھ کے روز عمارت کے اردگرد کے علاقے پر دھاوا بولا اور رہائشیوں کو عمارت گرانے کا حتمی فیصلہ سنا دیا۔ عمارت میں مقیم فلسطینیوں کو ہفتے کے روز، یعنی 26 جولائی تک کا وقت دیا گیا ہے کہ وہ خود ہی علاقہ خالی کر دیں، ورنہ انہیں جبر کے ذریعے نکال دیا جائے گا۔ اس مجرمانہ اقدام سے تقریباً 100 فلسطینی شہری، جن میں مرد، خواتین اور بچے شامل ہیں، ایک بار پھر جبری نقل مکانی کا شکار ہو جائیں گے۔
گورنری کے مطابق یہ رہائشی عمارت سنہ 1998ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ قابض اسرائیلی حکومت نے پہلی بار سنہ 2003ء میں اس پر نام نہاد “بغیر اجازت تعمیر” کا الزام عائد کر کے اسے منہدم کرنے کا حکم دیا تھا۔ تب سے لے کر آج تک وہاں رہنے والے فلسطینی باشندے قابض بلدیہ کو لاکھوں شیکل کے بھاری جرمانے ادا کرتے رہے ہیں۔
محافظہ کا کہنا ہے کہ جن خاندانوں کو اس عمارت سے بے دخل کیا جا رہا ہے، ان میں مسجد اقصیٰ کے خطیب اور اعلیٰ اسلامی کونسل کے سربراہ شیخ عکرمہ صبری کا خاندان بھی شامل ہے، جو فلسطینی قوم کی دینی اور سیاسی شناخت کا ایک روشن استعارہ ہیں۔
یہ واقعہ قابض اسرائیل کی اُس منظم پالیسی کا ایک اور خونی باب ہے، جس کے تحت وہ القدس کو فلسطینیوں سے خالی کر کے اسے یہودی رنگ میں رنگنا چاہتا ہے۔ قابض ریاست نے ایک جانب فلسطینیوں کے گھروں کو “بغیر اجازت” کے الزام میں منہدم کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے، تو دوسری جانب غیر قانونی صہیونی آبادکاروں کے لیے زمین ہموار کی جا رہی ہے۔