Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

نیتن یاہو حکومت میں پھوٹ ، شاس پارٹی کا علاحدگی کا اعلان

القدس – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قابض اسرائیل کی سیاسی فضا بدھ کی شام اس وقت ہل کر رہ گئی جب مذہبی جماعت “شاس” نے بنجمن نیتن یاہو کی قیادت میں قائم حکومت سے باضابطہ علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ یہ فیصلہ متنازعہ فوجی بھرتی قانون، خاص طور پر “حریدی” یہودیوں کی جبری بھرتی کے خلاف احتجاجاً کیا گیا، جبکہ شاس نے قیدیوں کے تبادلے سے متعلق کسی بھی ممکنہ ڈیل کی حمایت کا عندیہ بھی دیا ہے۔

قابض اسرائیل کے چینل 12 کی رپورٹ کے مطابق، شاس پارٹی کی سینئر قیادت، جسے “مجلس حکمائے تورات” کہا جاتا ہے، نے حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ تاہم وہ فی الحال حکومتی اتحاد سے مکمل طور پر الگ نہیں ہو رہے۔ پارٹی نے بنجمن نیتن یاہو کو حریدی یہودیوں کو فوجی سروس سے مستثنیٰ قرار دینے کے لیے قانون سازی کا موقع دینے کی غرض سے حکومت کے خلاف کسی عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت سے گریز کا فیصلہ کیا ہے۔

اس سے قبل، شاس پارٹی کے سربراہ آریے درعی نے اپنے قریبی رفقاء کو اشارہ دے دیا تھا کہ وہ عنقریب حکومت سے علیحدگی اختیار کر لیں گے۔

اگر شاس، جس کے کنیسٹ میں 11 نشستیں ہیں، حکومت سے دستبردار ہو جاتی ہے تو دسمبر 2022ء سے قائم نیتن یاہو کی حکومت اپنی عددی اکثریت کھو بیٹھے گی اور ایک اقلیتی حکومت میں تبدیل ہو جائے گی۔

اسی پس منظر میں اپوزیشن لیڈر یائیر لپید نے دو ٹوک الفاظ میں کہا:
“آج سے قابض اسرائیل میں ایک اقلیتی حکومت موجود ہے، جو قانونی اور اخلاقی جواز کھو چکی ہے۔”

اسرائیل کے معروف اخبار یدیعوت احرنوت نے رپورٹ کیا ہے کہ اگر شاس حکومت سے علیحدہ ہو جاتی ہے تو داخلہ، صحت، سماجی بہبود، محنت اور مذہبی امور کے وزراء بھی مستعفی ہو سکتے ہیں، جس سے حکومتی ڈھانچہ مزید انتشار کا شکار ہو جائے گا۔

دوسری جانب، حریدی یہودیوں کی طرف سے جبری فوجی بھرتی کے خلاف مظاہرے مسلسل جاری ہیں، جو اس وقت شدت اختیار کر گئے جب 25 جون 2024ء کو قابض اسرائیل کی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ حریدی یہودیوں کو فوجی بھرتی سے مستثنیٰ نہیں رکھا جا سکتا، اور ان کے مذہبی اداروں کو سرکاری مالی امداد دینا بھی بند کیا جائے۔

قابض اسرائیل کی کل آبادی کا تقریباً 13 فیصد حریدی یہودیوں پر مشتمل ہے، جو خود کو مکمل طور پر تورات کے مطالعے اور مذہبی علوم کے لیے وقف مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک فوجی خدمت نہ صرف ان کے عقیدے بلکہ معاشرتی شناخت کے لیے بھی خطرہ ہے۔

یہ مذہبی جماعتیں ایک ایسے قانون کے لیے سرگرم ہیں جو انہیں مکمل طور پر فوجی سروس سے مستثنیٰ قرار دے، تاہم حکومت میں شامل کئی سیکولر جماعتیں اور عوامی حلقے اس مطالبے کو سختی سے مسترد کر چکے ہیں۔

یہ سیاسی بحران قابض اسرائیل کے اندرونی خلفشار کی عکاسی کرتا ہے — ایک ایسی ریاست جو نہ صرف غزہ میں جاری نسل کشی میں شکست خوردہ ہے بلکہ داخلی طور پر مذہبی انتہاپسندی، نسلی امتیاز اور عدالتی تصادم جیسے گہرے بحرانوں میں بھی گھری ہوئی ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan