غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ کے مظلوم عوام کے لیے زندگی کا ہر لمحہ ایک نئی آزمائش بن چکا ہے اور اب ایندھن کی سنگین قلت نے ان کی زندگی کو مکمل تباہی کے کنارے لا کھڑا کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ سے وابستہ سات بین الاقوامی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں ایندھن کی قلت ایک “انتہائی نازک” مرحلے پر پہنچ چکی ہے، جو پہلے ہی جنگ سے تباہ حال لاکھوں فلسطینیوں کے لیے موت کا پیغام ثابت ہو سکتی ہے۔
آج ہفتے کے روز ایک مشترکہ بیان میں اقوامِ متحدہ کے ان اداروں نے کہا کہ دو برس کے طویل اور تباہ کن حملوں کے بعد غزہ کے باشندے شدید ترین مشکلات سے دوچار ہیں، خاص طور پر خوراک کی سیکیورٹی کا بحران ان کی زندگی کو مزید غیر محفوظ بنا چکا ہے۔ جب ایندھن ختم ہو جاتا ہے، تو یہ ان افراد پر ایک ایسا بوجھ ڈال دیتا ہے جو پہلے ہی بھوک، غربت اور بمباری کی دہلیز پر سانس لے رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی یہ ایجنسیاں، جن میں دفتر برائے انسانی امور (اوچا)، عالمی ادارۂ صحت اور عالمی خوراک پروگرام شامل ہیں، کہتی ہیں کہ ایندھن نہ صرف ہسپتالوں، پانی کے نظام، نکاسیِ آب، ایمبولینسوں اور انسانی امدادی سرگرمیوں کے لیے لازم ہے، بلکہ غزہ کی بچی کھچی بیکریوں کے لیے بھی ناگزیر ہے، جو محصور لوگوں کے لیے آخری سہارا ہیں۔
یہ بحران اس وقت سے شدت اختیار کر گیا ہے جب سے قابض اسرائیل نے غزہ پر اپنی نسل کشی پر مبنی جنگ مسلط کی، جو سنہ 2023ء کے 7 اکتوبر کو حماس کے غیر معمولی حملے کے بعد شروع ہوئی۔ اس کے بعد سے غزہ مسلسل محاصرے، بمباری، قحط، پانی کی قلت اور اب ایندھن کی مکمل بندش کا شکار ہے۔
اقوامِ متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ اگر غزہ میں ایندھن کی فراہمی فوری طور پر بحال نہ کی گئی، تو وہ تمام ادارے جو انسانی زندگی بچانے کے لیے کام کر رہے ہیں، مکمل طور پر بند ہو سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہوگا کہ ہسپتال کام نہیں کریں گے، صاف پانی ناپید ہو جائے گا، نکاسی کا نظام بیٹھ جائے گا، بیکریاں بند ہو جائیں گی اور سڑکیں گندگی کے انبار سے بھر جائیں گی۔
یہ صورتِ حال نہ صرف معصوم فلسطینیوں کو مہلک بیماریوں کے خطرے میں ڈال رہی ہے، بلکہ اُن کمزور طبقوں کو موت سے ہمکنار کر رہی ہے جن کی سانسیں زندگی کی مشینوں پر منحصر ہیں، جیسے آئی سی یو کے مریض اور وہ معذور افراد جو ایمبولینس کے بغیر ہسپتال تک پہنچ بھی نہیں سکتے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق، جمعے کے روز ایندھن کی ایک معمولی مقدار — 75 ہزار لیٹر — غزہ پہنچنے دی گئی، جو 130 دن کے بعد پہلی کھیپ تھی۔ تاہم، یہ مقدار روزمرہ کی ضروریات کا صرف ایک معمولی حصہ تھی۔ زندگی کو برقرار رکھنے، مریضوں کو بچانے، اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لیے ایندھن کی بڑی، مسلسل اور باقاعدہ فراہمی ناگزیر ہے۔
وزارتِ صحت نے بھی گزشتہ روز خبردار کیا کہ اگر ہسپتالوں کو مطلوبہ مقدار میں ایندھن نہ ملا، تو انہیں مجبوراً کفایت شعاری کی پالیسی اپنانی پڑے گی۔ اس کا مطلب ہوگا کہ کچھ وارڈز کو بجلی سے محروم کر دیا جائے گا، کچھ سہولیات بند کی جائیں گی اور گردوں کی صفائی جیسے حساس علاج معطل کر دیے جائیں گے۔
بدترین المیہ یہ ہے کہ جب ایمبولینسیں ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے بند ہو جاتی ہیں، تو مریضوں اور زخمیوں کو گدھا گاڑیوں یا ہاتھ سے کھینچی جانے والی ریڑھیوں پر ہسپتال پہنچایا جاتا ہے، اور جن کی زندگی مشینوں سے بندھی ہوتی ہے، وہ ہر لمحہ موت کے دہانے پر کھڑے ہوتے ہیں۔