Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

تیم! تمہاری ماں کی آواز ابھی تم تک نہیں پہنچی؟

غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )  غزہ وہ شہر جہاں زندگی کا پیمانہ اب کیلنڈر سے نہیں، آنکھوں کے آنسوؤں اور دلوں کی ٹوٹ پھوٹ سے ماپا جاتا ہے۔ اسی شہر میں تین سالہ فلسطینی بچہ تیم خیرالدین اپنی معصومیت اور بچپن کے خوابوں سے کوسوں دور، ایسی اذیت ناک زندگی گزار رہا ہے جو کسی بے گناہ بچے کے نصیب میں نہیں ہونی چاہیے۔

تیم ایک نایاب اور نامعلوم بیماری کے ساتھ پیدا ہوا، ایسی بیماری جس کی تشخیص بھی غزہ کے محدود اور جنگ زدہ طبی نظام میں ممکن نہ ہو سکی۔ اس بیماری نے اس کا سننا چھین لیا، اس کا جسم بگاڑ دیا، اس کے ہاضمے کو مفلوج کر دیا اور اس کے جسمانی نمو کو روک دیا۔ سنہ2023ء کے آخر تک تیم تین برس کا ہو چکا ہے، مگر اس کا وزن صرف سات کلوگرام ہے۔ اس کا کمزور اور نحیف جسم گویا جنگ، محاصرے اور مسلسل نظرانداز کیے جانے کا زندہ ثبوت ہے۔

امیدیں، معدوم علاج

تیم کے والد باسل خیرالدین ایک فلسطینی صحافی ہیں جو ایک طرف عوام کی داستانِ غم دنیا تک پہنچاتے ہیں اور دوسری طرف اپنے بیٹے کی خاموش چیخوں کو دل میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:

“تیم مکمل طور پر سننے سے محروم ہے۔ اس کے جسم میں پیدائشی خرابیاں ہیں، وہ عام خوراک کھا ہی نہیں سکتا، صرف ایک خاص میڈیکل دودھ اور نرم غذائیں کھا سکتا ہے جو اس وقت غزہ میں نایاب یا ناقابلِ برداشت حد تک مہنگی ہو چکی ہیں”.

باسل مزید کہتے ہیں “یہاں تک نوبت آ گئی ہے کہ غزہ اب بیماری کی شناخت تک کے قابل نہیں رہا، علاج تو بہت دور کی بات ہے۔”

بکھرتی امید… زخم خوردہ خواب

غزہ کے محاصرے سے پہلے ایک امید کی کرن پھوٹی تھی۔ تیم کو قطر کے حمد ہسپتال میں ایک بحالی پروگرام کے تحت سمعی آلات پہنائے گئے، تاکہ اس کی سماعت کو قوقعة کی پیوندکاری (cochlear implant) کے لیے تیار کیا جا سکے، جو نومبر سنہ2023ء میں طے تھی۔

باسل کے الفاظ میں “ہماری ساری امیدیں اسی آپریشن سے جُڑی تھیں، شاید تیم اپنے نام کی پکار سن سکے، یا ماں کی آواز پہچان لے لیکن قابض اسرائیل کے حملے میں وہ ہسپتال تباہ ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی ہمارا خواب بھی راکھ ہو گیا”.

قحط، محاصرہ اور ایک خستہ حال جسم

غزہ پر جنگ اور مسلسل محاصرے نے تیم کے غذائی حالات کو انتہائی تشویشناک بنا دیا ہے۔ نہ صرف ضروری ادویات غائب ہیں، بلکہ بچوں کے لیے مخصوص خوراک بھی یا تو دستیاب نہیں یا آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں پر بکتی ہے۔

باسل کی آواز میں درد چھپائے نہیں چھپتا کہ”میرا بیٹا خصوصی خوراک کا محتاج ہے۔ لیکن وہ یا تو ناپید ہے یا ہماری پہنچ سے باہر۔ اس کا جسم کمزور ہوتا جا رہا ہے، اور میں بے بسی سے اسے ٹوٹتے دیکھ رہا ہوں”۔

خاندان جنوب کی طرف نقل مکانی کر گیا، مگر محاصرہ کسی علاقے کا محتاج نہیں ہوتا، وہ ہوا، پانی اور خوراک تک میں پیچھا کرتا ہے۔

“میں صحافت کرتا رہا، لوگوں کے دکھ دنیا کو سناتا رہا، اور اپنی فیملی کے لیے زندگی کی بنیادی سہولیات تلاش کرتا رہا۔ مگر حقیقت بھیانک، زہریلی اور ناقابلِ برداشت ہے۔ میں شمال میں رُکا تاکہ نسل کشی کو ریکارڈ کر سکوں، اور اپنے کندھوں پر تیم سمیت غزہ کے ہر بچے کی چیخ اٹھا سکوں۔”

ایک باپ کی ٹوٹتی امید

باسل کی زبان پر صرف تیم کی نہیں، ہر اس باپ کی آہ ہے جس نے اپنے بچے کو دوائی، غذا اور زندگی سے محروم ہوتے دیکھا۔ وہ کہتے ہیں۔

“میں ایک بے بس باپ ہوں، اپنے بچے کو مرتے دیکھ رہا ہوں۔ صرف اس لیے کہ دوا محصور ہے، خوراک روکی جا رہی ہے، اور زندگی گولیوں اور بھوک سے چھینی جا رہی ہے”۔

“یہ بے بسی میری اندر سے نہیں آتی، یہ اس ظالم محاصرے کی پیداوار ہے، جس نے بچوں کے بنیادی حقوق — خوراک، علاج اور تحفظ — کو دور دراز کے خواب بنا دیا ہے۔”

دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑتا نداء

باسل ملبے کے درمیان سے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہتا ہے کہ “میں اپیل کرتا ہوں، جو کوئی بھی سن رہا ہے، وہ تیم کو علاج کے لیے غزہ سے باہر لے جائے۔ اسے طبی دودھ اور ایسی خوراک فراہم کرے جو اسے مزید تکلیف نہ دے۔ میرا بیٹا آہستہ آہستہ مر رہا ہے، اور ہر دن اس کی اور میری روح کا ایک حصہ لے جاتا ہے۔”

تیم کی کہانی محض ایک کہانی نہیں، یہ ان ہزاروں بچوں کی داستان ہے جو محاصرے میں جنم لیتے ہیں، پَلتے ہیں اور ان کا بچپن ہسپتالوں، ملبے اور قبروں تلے دفن ہو جاتا ہے۔

خونی اعداد و شمار… انسانیت کے لیے سوالیہ نشان

غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق، اب تک بھوک اور غذائی قلت کے باعث 93 بچے شہید ہو چکے ہیں، جن کی کل تعداد 180 ہے۔ 27 جولائی کو عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا کہ غزہ میں غذائی قلت خطرناک سطح پر پہنچ چکی ہے۔ ادھر یونیسیف کا کہنا ہے کہ صرف جولائی میں 5,000 بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہوئے۔

قابض اسرائیل کا حملہ، جو 7 اکتوبر سنہ2023ء سے جاری ہے، اب تک 2 لاکھ 9 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید یا زخمی کر چکا ہے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ 10 ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں، اور لاکھوں خاندان دربدر ہو چکے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک ایسی انسانی المیے کی تصویر ہے جسے موجودہ دور کی بدترین تباہی قرار دیا جا رہا ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan