غزہ ۔ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قابض اسرائیلی ریاست کی جانب سے غزہ پر مسلط کردہ انسانیت سوز محاصرے اور ظالمانہ بھوک پالیسی کا پردہ چاک کرتے ہوئے القسام بریگیڈز نے ایک اسرائیلی قیدی کی ویڈیو جاری کی ہے، جس میں اس کا انتہائی کمزور، نحیف اور لاغر جسم بھوک کے زخموں کی گواہی دے رہا ہے۔
ویڈیو میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ قابض اسرائیلی حکومت نے نہ صرف غزہ کے لاکھوں شہریوں کو دانستہ بھوکا مارنے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے، بلکہ اس کے اسیران بھی اسی قہر ناک بھوک کے ہاتھوں سسکنے پر مجبور ہیں۔ ویڈیو کا عنوان تھا: “حکومتِ قبضہ نے انہیں بھوکا مارنے کا فیصلہ کیا ہے۔”
القسام بریگیڈز کی جانب سے جاری کردہ اس ویڈیو میں ایک اسرائیلی قیدی کو غزہ کے ایک زیرزمین سرنگ میں دکھایا گیا ہے، جو شدید کمزوری کا شکار ہے۔ اس کے لاغر جسم پر قحط کی مہر ثبت ہے، جو دنیا کو چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ اس قابض ریاست نے انسانیت کو پامال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
ویڈیو کا آغاز ایک سابقہ تبادلے کی فوٹیج سے ہوتا ہے جس میں اسی قیدی، ابیتار داوید، کو دکھایا گیا ہے جو اس وقت صحت مند حالت میں اپنے دیگر ساتھیوں کی رہائی کا منظر دیکھ رہا تھا۔ اب، اسی قیدی کو جب موجودہ حالت میں دکھایا گیا تو اس کا جسم فاقوں سے جھلسا ہوا، چہرہ اُداسی کی گواہی دے رہا تھا۔
ویڈیو میں غزہ کے بچوں کی تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں جن کے چہرے بھوک کی اذیت سے جھلسے ہوئے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں وہی درد اور فاقہ زدہ حالت جھلک رہی ہے جو اس اسرائیلی قیدی کی ہے۔ گویا ایک خاموش پیغام تھا کہ اسیر اور شہری، دونوں اس مشترکہ مصیبت میں یکساں شکار ہیں۔
ایک منظر میں قیدی کو اپنے ایامِ اسیری کا حساب رکھتے دیکھا جا سکتا ہے، جو اس کی طویل قید، دنیا سے کٹے ہوئے وجود اور اذیت ناک انتظار کا عکاس تھا۔ ویڈیو کے دوران قابض اسرائیلی وزیر برائے داخلی سکیورٹی ایتمار بن گویر کا وہ بیان بھی دکھایا گیا جس میں اس نے کہا تھا: ’’غزہ میں صرف بم بھیجنے چاہییں‘‘، جبکہ بنجمن نیتن یاھو کی طرف سے امدادی سامان کو کم سے کم سطح پر رکھنے کے حکم کا ذکر بھی کیا گیا۔
ایک اور منظر میں قیدی کو پانی پیتے دکھایا گیا اور اس کے ساتھ ہی ایک فلسطینی بچے کی تصویر نمایاں ہوئی جو قحط کی شدت سے مرجھایا ہوا تھا، کیونکہ قابض اسرائیل نے بچوں کا دودھ بھی غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔
ویڈیو کے اختتام پر ایک جملہ ابھرا “ہم جو کھاتے ہیں وہی یہ بھی کھاتے ہیں، ہم جو پیتے ہیں وہی یہ بھی پیتے ہیں”۔
یہ ایک واضح پیغام تھا کہ غزہ میں انسان اور قیدی دونوں کو زندگی کی نچلی ترین سطح پر رکھا جا رہا ہے، جیسا کہ قابض اسرائیل نے غزہ کے باسیوں کے ساتھ کیا ہے۔
واضح رہے کہ القسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ نے ماضی میں واضح طور پر کہا تھا کہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی صرف ایک جامع تبادلہ معاہدے کے تحت ممکن ہے، جسے قابض اسرائیلی حکومت مسلسل نظرانداز کرتے ہوئے عسکری جارحیت کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔
القسام بریگیڈز پہلے بھی متعدد ویڈیوز جاری کر چکی ہے جن میں قابض اسرائیل کے فوجی قیدیوں کی حالت زار اور ان کی اپنے ملک سے رہائی کی فریادیں شامل تھیں، مگر قابض ریاست نے ان کی آوازوں کو بھی بمباری کے شور میں دفن کر دیا۔
غزہ اس وقت اپنی تاریخ کی بدترین انسانی بحران سے گزر رہا ہے۔ فاقہ کشی اور قحط کے ساتھ ساتھ قابض اسرائیل کی سرپرستی میں جاری نسل کشی نے غزہ کو مقتل بنا دیا ہے۔ 7 اکتوبر سنہ2023ء سے جاری اس جنگ میں اب تک 2 لاکھ 8 ہزار فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جبکہ فاقہ کشی اور غذائی قلت کی وجہ سے شہداء کی تعداد 159 تک جا پہنچی ہے، جن میں 90 معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ 90 فیصد عمارات تباہ ہو چکی ہیں اور 20 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔