خان یونس – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ کے زخمی آسمان تلے ایک اور فلسطینی دل راکھ کے ڈھیر میں دفن ہو گیا۔ یہ کہانی ہے مجدی جاد اللہ کی، جو ایک معذور فلسطینی ہے۔ جس کی دنیا بس ایک چھوٹے سے کمرے، معصوم بچوں کی ہنسی اور بیوی کے نرم سہارے تک محدود تھی۔ مگر ظالم، فاشسٹ صہیونی ریاست نے وہ سب کچھ چھین لیا، وہ بھی اس طرح کہ نہ چیخنے کی مہلت ملی، نہ آہ بھرنے کا موقع۔
بدھ 9 جولائی 2025ء کو شام کے وقت خان یونس میں ایک اسرائیلی بم اس کے گھر پر گرا۔ ایک ہی پل میں مجدی کا سب کچھ ملبے تلے دفن ہو گیا۔ بیوی، جو اس کے قدموں کی طاقت تھی، اور تین ننھے بچے — پانچ سالہ یحییٰ، تین سالہ موسیٰ، اور ڈیڑھ سالہ ابراہیم — وہ سب جو اس کے جینے کا جواز تھے، اسی لمحے خاموش ہو گئے۔
مجدی بچ گیا… لیکن وہ جسے ہم “زندگی” کہتے ہیں، وہ مجدی کے ساتھ زندہ نہ رہی۔
اکیلا رہ گیا، جسم کام نہیں کرتا، دل ٹوٹ گیا
مجدی برسوں سے جسمانی معذوری کا شکار ہے۔ وہ چلنے کے لیے دوسروں کا محتاج تھا، لیکن روح کا قوی تھا۔ ہنستا تھا، بچوں کے ساتھ کھیلتا تھا، چھوٹے چھوٹے لمحوں میں زندگی ڈھونڈتا تھا۔ اس دن بھی وہ معمول کے مطابق بچوں کے ساتھ بیٹھا تھا، کھیل رہا تھا، ہنس رہا تھا…
پھر آسمان دہاڑا، زمین لرز گئی، اور سب کچھ ملبے تلے دفن ہو گیا۔
مجدی نے بھری ہوئی آنکھوں سے کہا:
“بس ایک آواز آئی، دیواریں گریں، میں ہل بھی نہ سکا، چیخ بھی نہ سکا۔ صرف دیکھتا رہا کہ میری زندگی کا ہر رنگ مٹی میں گم ہوتا جا رہا ہے۔”
اس نے مزید کہا:
“میری بیوی ہی میرا سب کچھ تھی۔ میری آنکھ، میرا ہاتھ، میری طاقت۔ وہ بچوں کو تیار کرتی، ہنساتی، رُلاتی… اور آج؟ آج میں اکیلا ہوں، ایک لاش ہوں جو سانس لے رہی ہے۔”
خان یونس کی زمین سیاہ ہو چکی ہے
یہ حملہ کوئی الگ واقعہ نہیں۔ یہ اس نہ ختم ہونے والی درندگی کی تازہ مثال ہے جو قابض اسرائیلی افواج نے غزہ کے ہر کونے پر برسائی ہوئی ہے۔ خان یونس، جو کبھی زندگی کی سانسیں لیا کرتا تھا، اب لاشوں کا شہر بن چکا ہے۔
بمباری میں نہ مکان محفوظ ہیں، نہ اسکول، نہ ہسپتال۔ نہ بچوں کی چیخیں سنی جاتی ہیں، نہ ماؤں کی آہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ مرنے والوں میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ مجدی کا خاندان بھی اسی نہ ختم ہونے والی فہرست کا ایک عدد بن گیا۔ وہ فہرست جس کا ہر اندراج ایک انسان تھا، ایک زندگی تھی، ایک پوری دنیا تھی۔
جس کے پاس صرف مسکراہٹیں تھیں، وہ بھی چھین لی گئیں
مجدی کی ساری دولت بس اس کی بیوی کی مسکراہٹ تھی، بچوں کی ہنسی تھی، دیوار پر ٹنگی ایک چھوٹی سی تصویر تھی، بچوں کے ہاتھوں سے بنایا ہوا دل کا نشان تھا۔
آج کچھ بھی باقی نہیں۔
نہ وہ گھر رہا، نہ آوازیں، نہ وہ ننھی بانہوں کی گرفت جو اسے تھام لیا کرتی تھیں۔
اب وہ ایک پناہ گزین کیمپ میں بیٹھا ہے، دیوار کو گھورتا رہتا ہے، جیسے کوئی منظر یاد کر رہا ہو۔
یا کسی دروازے کی طرف دیکھتا ہے… جو شاید کبھی کھلے گا ہی نہیں۔
وہ کہتا ہے:
“میں جانتا ہوں، میں اکیلا نہیں جس پر قیامت ٹوٹی، مگر بس اتنا چاہتا ہوں کہ میرے بچوں کو بھولا نہ جائے۔ ان کے چہرے، ان کی آنکھیں… وہ کچھ نہیں چاہتے تھے، صرف جینا چاہتے تھے۔ مگر ظالم دشمن نے ان سے ان کی زندگی چھین لی… اور مجھے زندگی بھر کا ایک نہ ختم ہونے والا روگ دے دیا۔”