Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

اسماعیل ہنیہ: شہیدوں کے قافلے سے جا ملے

غزہ ۔۔۔ فلسطین افائونڈیشن پاکستان+- اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایرانی دارالحکومت تہران میں صہیونی حملے میں اپنی جان دے کر شہیدوں کے اُسی قافلے میں شامل ہو گئے جن میں تنظیم کے سابق قائدین پہلے ہی جڑ کر اپنی مراد پا چکے ہیں۔ اسماعیل کے یہ الفاظ کہ “ہم اسرائیل کو ہرگز تسلیم نہیں کریں گے” تاریخ میں امر ہو گئے ہیں۔

اسماعیل ہنیہ کے سب سے بڑے بیٹے عبدالسلام ہنیہ نے اپنے والد کی شہادت پر کہا کہ “ان کے والد اور باقی شہداء کا خون امت اور مزاحمت کو پھر سے زندہ کرے گا یہاں تک کہ فتح یقینی بن جائے”۔

اپنے خاندان کے متعدد افراد کی شہادت پر عبدالسلام کا کہنا تھا کہ “میرے والد کا خون غزہ میں شہید ہونے والے بچوں، مردوں اور عورتوں کے خون سے زیادہ قیمتی نہیں ہے… ہم جہاد اور انقلاب کے راستے پر ہیں۔ اگر قابض طاقت یہ سمجھتی ہے کہ مزاحمت اور جذبہ ختم ہو جائے گا تو یہ اس کا وہم ہے، قائدین کا خون ہماری مزاحمت اور انقلاب کو نئی زندگی بخشتا ہے”۔

تہران حملے سے پہلے اسرائیل کی جانب سے اسماعیل ہنیہ کو چار مرتبہ قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ ان حملوں کے دوران غزہ کی پٹی میں جنگوں میں اسماعیل کے کئی بیٹے، پوتے اور خاندان کے دیگر افراد شہید ہوئے اور قابض اسرائیلی فوج نے کئی مرتبہ ان کے گھر کو تباہ کیا۔

پیدائش اور پرورش

اسماعیل ہنیہ کا پورا نام ‘اسماعیل عبدالسلام احمد ہنیہ’ تھا۔ وہ 29 جنوری 1963 کو غزہ شہر کے مغرب میں واقع الشاطی مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئے۔ اسماعیل کے گھرانے نے 1948 میں عسقلان کے الجورہ گاؤں سے جبری ہجرت کے بعد اسی پناہ گزین کیمپ میں پناہ لی تھی۔ اسماعیل کی شادی 1980 میں 17 برس کی عمر میں ہوئی۔ ان کے 13 بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔

تعلیم اور طلبہ سرگرمیاں

اسماعیل نے ابتدائی تعلیم اقوام متحدہ کی ذیلی ایجنسی ‘انروا’ کے سکولوں میں حاصل کی اور معہد الازہر سے انٹرمیڈیٹ کیا۔ انھوں نے 1987 میں غزہ کی جامعہ اسلامیہ میں داخلہ لیا اور عربی ادب کے شعبے سے فارغ التحصیل ہوئے۔ اسماعیل کو 2009 میں جامعہ اسلامیہ کی جانب سے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا گیا۔

اسماعیل نے 1983 میں حماس تنظیم کے طلبہ ونگ ‘الکتلہ الاسلامیہ’ سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور 1985 میں وہ طلبہ کونسل کے سربراہ مقرر ہوئے۔ اسماعیل ہنیہ نے 1990 کی دہائی میں غزہ کی جامعہ اسلامیہ میں کئی عہدوں پر کام کیا۔ بعد ازاں 1997 میں انھوں نے حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کے دفتر کی سربراہی سنبھالی۔

گرفتاری

قابض اسرائیلی فوج نے اسماعیل ہنیہ کو پہلی بار 1987 میں فلسطینی انتفاضہ شروع ہونے کے فوراً بعد گرفتار کیا۔ انھوں نے تقریباً ایک ماہ جیل میں گزارا۔ اس کے بعد 1988 میں وہ دوبارہ گرفتار ہوئے اور اس بار چھ ماہ جیل میں رہے۔ اگلے سال 1989 میں اسماعیل کو ایک بار پھر حراست میں لے لیا گیا اور انھوں نے تین سال جیل میں گزارے۔

رہائی کے بعد اسماعیل کو حماس اور الجہاد الاسلامی تنظیموں کے 400 رہنماؤں کے ساتھ ملک بدر کر کے لبنان کے جنوب میں واقع علاقے مرج الزہور جلاوطن کر دیا گیا۔ ایک سال جلاوطنی کے بعد اسماعیل غزہ کی پٹی واپس آ گئے اور غزہ کی جامعہ اسلامیہ میں ‘الکتلہ الاسلامیہ’ کے سربراہ بن گئے۔

اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل کی جانب سے چار بار قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ان میں ایک کارروائی کے دوران وہ زخمی ہوئے۔ یہ اسرائیلی حملہ 6 ستمبر 2003 کو ہوا تھا، جس میں حماس کے بانی شیخ احمد یاسین سمیت تنظیم کے بعض دیگر رہنماؤں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

انتخابات میں کامیابی اور وزارت عظمیٰ

جنوری 2006 کے پارلیمانی انتخابات میں حماس تنظیم نے “تبدیلی اور اصلاح بلاک” کے نام سے حصہ لیا۔ اس بلاک نے پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔ اس طرح اسماعیل ہنیہ فروری 2006 میں حماس کی جانب سے تشکیل دی گئی دسویں فلسطینی حکومت میں وزیر اعظم بن گئے۔

اگلے سال 2007 میں انھوں نے قومی یکجہتی حکومت کی سربراہی سنبھالی۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے جون 2007 کے واقعات کے بعد وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ کو برطرف کر دیا، جسے غیر قانونی قرار دیا گیا۔ اس کے بعد مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں دو الگ حکومتیں بن گئیں۔ اسماعیل ہنیہ نے کئی بار اعلان کیا کہ وہ وسیع مصالحت کے سلسلے میں حکومت کی سربراہی سے دستبردار ہونا قبول کرتے ہیں، اور 2 جون 2014 کو رامی الحمد اللہ کے لیے عملی طور پر دستبردار ہو گئے۔

اسماعیل ہنیہ ایک بار حماس کے سیاسی دفتر کے نائب سربراہ اور دو بار غزہ کی پٹی میں حماس کے قائد کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔

حماس کی سربراہی

اسماعیل ہنیہ 6 مئی 2017 کو حماس تنظیم کے سیاسی دفتر کے سربراہ بن گئے۔ انھیں تنظیم کی مجلس شوریٰ کے ارکان نے دوحہ اور غزہ میں بیک وقت ہونے والے انتخابات میں منتخب کیا۔ اسماعیل ہنیہ حماس تنظیم میں اس اعلیٰ ترین سیاسی منصب پر فائز ہونے والی تیسری شخصیت ہیں۔ ان سے قبل ڈاکٹر موسی ابو مرزوق 1992 میں حماس کے پہلے سیاسی دفتر کے سربراہ منتخب ہوئے تھے۔ ان کے بعد خالد مشعل نے انتخابات کے راستے تقریباً بیس برس تک یہ منصب سنبھالا۔

طوفان الاقصیٰ میں شرکت

7 اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل کے خلاف “طوفان الاقصیٰ” آپریشن شروع کیا، جس کے فوراً بعد اسماعیل ہنیہ دوحہ میں تنظیم کی قیادت کے ہمراہ ایک ویڈیو میں نمودار ہوئے۔ ویڈیو کے مناظر کے مطابق اسماعیل ایک عربی ٹی وی چینل پر حماس کے عسکری ونگ عز الدین القسام بریگیڈز کے مزاحمت کاروں کے بارے میں رپورٹ دیکھ رہے تھے جو اسرائیلی فوجی گاڑیوں پر قبضہ کر چکے تھے۔

فلسطینیوں کی نسل کشی کے صہیونی جنگ میں شدت آنے کے بعد بھی اسماعیل ہنیہ قتل عام روکنے کے لیے متحرک رہے اور متعدد تقاریر، سفارتی ملاقاتیں، اور کئی ممالک کے دورے کیے۔ انھوں نے فلسطینی عوام کے حقوق اور دشمن کی جارحیت روکنے کے مطالبے پر ڈٹ کر اپنے خاندان کے متعدد افراد کی شہادت کے باوجود دباؤ میں نہیں آئے۔

شہادت

10 اپریل 2024 کو عید الفطر کے موقع پر اسرائیل نے غزہ کے الشاطی کیمپ میں ایک گاڑی پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں اسماعیل ہنیہ کے گھرانے کے سات افراد شہید ہو گئے، جن میں اسماعیل کے تین بیٹے اور پوتے بھی شامل تھے۔ اس سانحے کے بعد اسماعیل نے کہا کہ “میرے بیٹوں اور پوتوں کا خون فلسطینی قوم کے لوگوں سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔ میں اس اعزاز کے حاصل ہونے پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں”۔

24 جون 2024 کو اسرائیلی فوج نے الشاطی کیمپ میں ایک گھر پر بم باری کی، جس کے نتیجے میں اسماعیل ہنیہ کی بہن سمیت خاندان کے 10 افراد شہید ہو گئے۔ اسرائیلی فوج نے 1948 کی مقبوضہ اراضی سے اسماعیل ہنیہ کی ایک شادی شدہ بہن کو گرفتار کر لیا۔

مناصب

  • مئی 2017 میں خالد مشعل کے بعد حماس کے سیاسی دفتر کی سربراہی سنبھالی۔
  • فروری 2006 سے 14 جون 2007 تک فلسطین کے وزیر اعظم رہے۔ اس کے بعد غزہ کی پٹی میں نگراں وزیر اعظم کے طور پر یکم جون 2014 تک کام کیا۔
  • غزہ کی پٹی میں حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ رہے۔
  • حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کے دفتر کے ڈائریکٹر رہے۔
  • غزہ کی جامعہ اسلامیہ میں اعلیٰ انتظامی اتھارٹی کے رکن رہے۔
  • دس برس تک جامعہ اسلامیہ کے کلب کے صدر رہے۔
  • غزہ کی جامعہ اسلامیہ میں بورڈ آف ٹرسٹیز کے سکریٹری رہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan