Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

غزہ : فلسطینی بھوک، بیماری اور بے گھر ہونے کے عذاب سے دوچار

غزہ(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قابض اسرائیل کی دو سالہ خونریز نسل کشی کے بعد غزہ کی پٹی آج ایک ایسی انسانی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے جس کی مثال جدید تاریخ میں نہیں ملتی۔ اگرچہ فائر بندی کا اعلان کیا جا چکا ہے مگر زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ یہ جنگ اپنے زخموں کے ساتھ برسوں تک اہلِ غزہ کو تڑپاتی رہے گی۔

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق 19 لاکھ سے زائد فلسطینی اپنے گھروں سے محروم ہو چکے ہیں، جو کہ غزہ کی آبادی کا تقریباً 85 فیصد بنتا ہے۔ ان میں سے لگ بھگ 17 لاکھ افراد عارضی خیموں یا گنجان کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔

انروا کے تباہ شدہ سکولوں، کھلے میدانوں اور ملبے کے ڈھیروں پر قائم پناہ گاہوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ یہ مراکز اپنی گنجائش سے کہیں زیادہ متاثرین کو سمیٹے ہوئے ہیں، جہاں ایندھن کی کمی، پانی اور نکاسیِ آب کے نظام کے انہدام نے انہیں بیماریوں کے گڑھ میں تبدیل کر دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں 70 فیصد رہائشی عمارتیں مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ اس سے بحالیِ تعمیرات کا عمل تاریخ کی سب سے بڑی انسانی مہمات میں سے ایک بن چکا ہے۔

انروا کا کہنا ہے کہ غزہ کو فوری طور پر کم از کم چار لاکھ خیموں یا عارضی رہائش کی ضرورت ہے تاکہ انسانی المیے کی شدت کو کم کیا جا سکے۔ پینے کے صاف پانی، بجلی اور بنیادی طبی سہولتوں کی شدید قلت نے لاکھوں خاندانوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔

ناروے کے پناہ گزین مرکز کے مطابق تقریباً 11 لاکھ فلسطینیوں کو ہنگامی رہائش کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے واضح کیا ہے کہ غزہ میں بحالی کے لیے بنیادی ڈھانچے کی از سرِ نو تعمیر ناگزیر ہے۔ ان کے مطابق، مزید راستے کھولنے، امدادی کارکنوں اور شہریوں کے لیے محفوظ نقل و حرکت کی ضمانت دینے، اشیائے ضروریہ کی بلا رکاوٹ فراہمی، ویزوں کے اجرا اور بین الاقوامی اداروں کو کام کرنے کے مواقع فراہم کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

دوجارک نے فائر بندی کی حمایت کرنے والے عالمی رہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ اقوام متحدہ کی انسانی سرگرمیوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رکھنے میں تعاون کریں اور سخاوت کے ساتھ مدد فراہم کریں۔

اتوار کی صبح مصری میڈیا کے مطابق، رفح کے راستے سے 400 امدادی ٹرک غزہ کی جانب روانہ ہوئے جنہیں کرم ابو سالم اور العوجہ گزرگاہوں کے راستے داخل کیا جا رہا ہے۔ پہلی ہی گھنٹے میں 90 ٹرک مصری جانب سے رفح عبور کر کے کرم ابو سالم اور العوجہ پہنچ گئے۔

مارچ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ العوجہ راستے سے امداد بھیجی جا رہی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ٹرک داخل کیے جا سکیں۔ اس وقت ہزاروں خوراک، ادویات اور دیگر ضروری سامان سے لدے ٹرک فائر بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے بعد غزہ میں داخلے کی اجازت کے منتظر ہیں۔

’انروا‘ کا کردار بحال کرنے کی ضرورت

انروا کے میڈیا مشیر عدنان ابو حسنہ نے بتایا کہ ادارے نے آئندہ مرحلے کے لیے جامع منصوبے ترتیب دیے ہیں جن میں تعلیمی عمل کی بحالی، طبی مراکز کی مرمت اور خوراک کی وسیع تر تقسیم شامل ہے۔

ان کے مطابق، دو برسوں سے تعلیم سے محروم 6 لاکھ 60 ہزار طلبہ ملبے کے ڈھیروں میں زندگی گزار رہے ہیں جن کے لیے فوری طور پر تدریسی سرگرمیوں کی بحالی ناگزیر ہے۔

یونیسف کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قابض اسرائیل نے 600 سے زائد سکول اور جامعات کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کر دیا، جس کے نتیجے میں چھ لاکھ سے زیادہ طلبہ معمول کی تعلیم سے محروم ہیں۔

ابو حسنہ نے کہا کہ انروا کے زیرِ انتظام 22 مرکزی طبی مراکز ہیں جنہوں نے 7 اکتوبر سنہ2023ء سے اب تک 1 کروڑ سے زائد مریضوں کا علاج کیا ہے، جو ادارے کے تعلیمی اور صحت کے دو اہم کرداروں کو نمایاں کرتا ہے۔

انسانی امداد اور غذائی بحران

انہوں نے بتایا کہ انروا کے پاس 6 ہزار امدادی ٹرک تیار کھڑے ہیں جن میں خوراک، خیمے، کمبل، ادویات اور پانی شامل ہیں، جو کم از کم تین ماہ کے لیے غزہ کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ “ممکن ہے دیگر ادارے بھی سرگرم ہوں مگر انروا سب سے زیادہ تیار اور منظم ہے۔” ادارے کے پاس 12 ہزار سے زائد تربیت یافتہ ملازمین موجود ہیں، جب کہ بعض دوسرے ادارے 20 سے 25 افراد پر مشتمل ہیں۔

ابو حسنہ نے واضح کیا کہ انروا کو نظرانداز کرنے کے سنگین نتائج برآمد ہوئے جن میں قحط کا پھیلاؤ، امداد کی لوٹ مار اور افراتفری شامل ہیں، کیونکہ جب اقوام متحدہ کا نظام معطل کیا گیا تو عوام امداد سے محروم رہ گئے۔

طبی شعبے کا انہدام اور سنگین صورتحال

غزہ کی وزارتِ صحت نے بتایا کہ 70 فیصد سے زیادہ طبی مراکز تباہ یا غیر فعال ہو چکے ہیں جن میں شمالی غزہ کے بڑے ہسپتال بھی شامل ہیں۔

وزارت کے مطابق، صحت کے شعبے کی بحالی کے لیے 7 ارب ڈالر سے زائد درکار ہوں گے تاکہ ہسپتالوں، طبی مراکز اور ضروری آلات و ادویات کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔

تنظیم “ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز” کی علاقائی ترجمان جنان سعد کے مطابق غزہ کے صحت کے نظام کو اندرونی بحالی اور زخمیوں کی بیرونِ ملک منتقلی دونوں کی سخت ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ “فائر بندی کے ساتھ ساتھ فوری طور پر بڑے پیمانے پر طبی امداد کی فراہمی یقینی بنانا ضروری ہے، خاص طور پر شمالی غزہ میں، تاکہ زخمیوں اور مریضوں کو بچایا جا سکے۔”

ان کے مطابق، غزہ میں طبی، نفسیاتی اور مادی ضروریات ناقابلِ بیان حد تک زیادہ ہیں۔ دو لاکھ کے قریب افراد سخت سردیوں میں سر چھپانے کی جگہ کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

جنان سعد نے واضح کیا کہ غزہ کا صحتی نظام منظم انداز میں تباہ کیا گیا ہے۔ دو تہائی سے زیادہ ہسپتال بند ہیں یا جزوی طور پر کام کر رہے ہیں، ایندھن، ادویات اور عملے کی شدید کمی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اگرچہ کچھ مریض غیر معمولی حالات میں باہر جا سکے مگر ہزاروں اب بھی اجازت کے منتظر ہیں۔

ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نے تمام سنگین زخمیوں کی فوری منتقلی اور ان کے علاج کے لیے مغربی کنارے یا بیرونِ ملک ہسپتالوں تک محفوظ رسائی کی اپیل کی ہے۔

سیاسی رکاوٹیں اور تعمیر نو کے چیلنجز

جنان سعد نے بتایا کہ ان کی تنظیم کے پاس غزہ میں کام کرنے والی ٹیمیں موجود ہیں مگر ان کی سرگرمیوں کا دارومدار سکیورٹی اور نقل و حرکت کی آزادی پر ہے۔

گذشتہ جمعے دوپہر فائر بندی کا معاہدہ نافذ ہوا جسے قابض حکومت نے صبح کے وقت منظور کیا۔ یہ معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے پر مبنی ہے جس کے تحت جنگ کا خاتمہ، قبضے والی فوج کا تدریجی انخلا، قیدیوں کا تبادلہ اور فوری امداد کی فراہمی شامل ہے۔

اگرچہ کئی ممالک نے تعمیرِ نو میں تعاون کی پیشکش کی ہے مگر اسرائیلی پابندیاں، خاص طور پر تعمیراتی سامان کی داخلے پر روک اور سترہ سالہ محاصرہ، سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جنگ کے بعد غزہ کے لیے ایک جامع بین الاقوامی منصوبے کی ضرورت ہے جو فوری امداد، پائیدار ترقی اور مکمل فلسطینی خودمختاری کے ساتھ منسلک ہو، ورنہ غزہ کی بحالی ناممکن ہوگی۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan