غزہ(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) یورومیڈیٹرینیئن ہیومن رائٹس مانیٹر نے خبردار کیا ہے کہ قابض اسرائیل غزہ کی پٹی میں امداد کی مسلسل بندش اور غذائی قلت کے ذریعے قحط کو ایک منظم نسل کشی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے، اور غزہ میں بھوک کا خطرہ بدستور برقرار ہے۔
اپنے بیان میں انسانی حقوق کے ادارے نے کہا کہ قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ میں داخل ہونے والی اشیائے خوردونوش اور امدادی سامان کی محدود مقدار، محصور فلسطینیوں کی حقیقی ضروریات کے صرف ایک معمولی حصے کے برابر ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ “ہم قابض اسرائیل کی جانب سے انسانی امداد میں مزید کمی کے اشاروں اور رفح کراسنگ کو بند رکھنے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں، جس کی آڑ میں وہ اپنے ہلاک فوجیوں کی لاشوں کی عدم حوالگی کا بہانہ بنا رہا ہے۔”
مانیٹر کے مطابق قابض اسرائیل نے گذشتہ جمعہ کے روز جنگ بندی کے بعد صرف دو دن کے دوران 173 ٹرکوں کو امداد لے جانے کی اجازت دی، جب کہ پیر کے روز کسی بھی ٹرک کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی اور منگل کو بھی یہ عمل یہودی مذہبی تہواروں کے بہانے معطل رہا۔
ادارے نے کہا کہ قابض اسرائیل کی طرف سے امداد کے حجم پر مکمل کنٹرول اور جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد سے گریز اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ وہ نسل کشی کے جرائم پر مصر ہے۔ ادارے نے واضح کیا کہ انسانی امداد کی فراہمی کوئی رعایت یا اختیار نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی قانونی ذمہ داری ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
مانیٹر نے اس امر پر زور دیا کہ “تمام انسانی امداد غیر جانب دار بنیادوں پر، صرف ضرورت اور انسانی تقاضوں کے مطابق فراہم کی جانی چاہیے، نہ کہ کسی امتیاز، تاخیر یا سیاسی مفاد کے تحت”۔
ادارے نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں تمام عسکری کارروائیوں کے مکمل خاتمے اور قابض اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ ظالمانہ محاصرے کے فوری و مکمل خاتمے کے لیے اقدامات کرے۔ ساتھ ہی ایسی بین الاقوامی ضمانتیں فراہم کی جائیں جو قابض ریاست کو دوبارہ محاصرہ مسلط کرنے یا انسانی امداد کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالنے سے روک سکیں۔
مانیٹر نے خبردار کیا کہ اگر عالمی برادری نے قابض اسرائیل کی ان سنگین خلاف ورزیوں پر خاموشی اختیار کی یا نرمی دکھائی تو یہ دراصل ایک نئی نسل کشی کے حالات کو دوبارہ جنم دینے کے مترادف ہوگا۔