Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

’ہمیں صبر کی تلقین نہ کرو، ہم بھی انسان ہیں،بھوک ، پیاس اور موت کے سوا کچھ نہیں‘

 

غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ کی فریاد ایک بار پھر دنیا کے ضمیر پر دستک دے رہی ہے۔ ’’غزہ بھوکی مر رہی ہے‘‘ کے عنوان سے سوشل میڈیا پر غم و غصے سے بھرپور مہم جاری ہے، جو اس المیے کا عکس پیش کر رہی ہے جس کا سامنا اس محصور اور مظلوم علاقے کو ہے۔ یہ صدا ان فلسطینیوں کی ہے جنہیں قابض اسرائیل کی درندگی اور امریکہ کی پشت پناہی نے نسل کشی کے دہانے تک پہن چھوٹے معصوم چہروں، کمزور ہاتھوں اور کانپتی آوازوں میں گونجتی صدائیں دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

قابض اسرائیل کی وحشیانہ ناکہ بندی اور انسان دشمن پالیسیوں نے غزہ کو قحط زدہ وادی میں بدل دیا ہے۔ غذا، دوا، دودھ، اور یہاں تک کہ سانس لینے کی آزادی بھی سلب کر دی گئی ہے۔ جاری نسل کشی کی اس جنگ کے آغاز سے اب تک 70 بچے اور شیرخوار بھوک اور غذائی قلت کے باعث شہید ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نے نہ صرف کھانے پینے کی اشیاء کی ترسیل روکی ہے بلکہ غذائی سپلیمنٹس اور بچوں کے دودھ پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔

غزہ کے سرکاری میڈیا دفتر کی رپورٹ کے مطابق، 24 لاکھ کی آبادی میں سے 6 لاکھ 50 ہزار بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ 60 ہزار حاملہ خواتین نہ خوراک حاصل کر پا رہی ہیں، نہ طبی نگہداشت میسر ہے۔ یہاں انسان ایک ایسی بھوک کی چکی میں پس رہے ہیں جس میں پیٹ بھر کر کھانا ایک خواب بن چکا ہے۔

مارچ کے آغاز سے اسرائیل کی جانب سے راستے بند کیے جانے نے بھوک کی اس آگ کو مزید بھڑکا دیا ہے۔ امدادی قافلے یا تو روکے جا رہے ہیں یا لوٹ لیے جاتے ہیں۔ کئی بار یہ ٹرک سکیورٹی کے نام پر ان شہداء کی لاشوں کے قریب کھڑے پائے گئے جنہیں امداد لینے کے دوران نشانہ بنایا گیا۔

ایک وائرل ویڈیو میں ایک چھوٹی سی بچی ملبے کے ڈھیر پر کھڑی ہو کر روتے ہوئے کہتی ہے:
“صبر کی باتیں مت کرو، ہم بھی انسان ہیں۔ ہمیں بھوک لگی ہے، ہمیں زندگی چاہیے۔”
ایک اور کلپ میں ایک زخمی بچہ ہسپتال کے بستر پر آنکھوں میں آنسو لیے کہتا ہے:
“میں بھوکا ہوں۔”

تصاویر میں وہ بچے دکھائی دے رہے ہیں جن کی پسلیاں گنی جا سکتی ہیں۔ ایسے ضعیف بزرگ جنہیں کمزوری نے زمین سے باندھ دیا ہے۔ ایک خاتون ایک خیراتی مرکز کے باہر کہتی ہے:
“ہم تھک چکے ہیں۔ ایک لنگرخانے سے دوسرے تک بھاگ رہے ہیں، مگر ایک نوالہ بھی نہیں ملتا۔ ہمارا قصور کیا ہے؟”

عبداللہ ابو زرکہ نامی ایک بچہ بھوک سے بلک رہا ہے اور اس کی ماں بے بسی سے اشک بہا رہی ہے۔

غزہ کی وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل، ڈاکٹر منیر البرش کا درد بھرا پیغام ہر زندہ ضمیر انسان کو جھنجھوڑ رہا ہے۔ انہوں نے ایک شہید بچے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا:
“ساکت نہ رہو، غزہ بھوک سے ذبح ہو رہا ہے۔ اے بھائی، اے بہن! تم جہاں بھی ہو، جس زبان میں بھی بولتے ہو، اگر دل رکھتے ہو تو کچھ کرو۔ یہاں بچے گندم کے تھیلوں کے دروازوں پر جان دے رہے ہیں۔ مائیں آنسو بہا کر بچوں کے پیٹ بھرنے کی دعا مانگ رہی ہیں۔ ہم ناممکن کا مطالبہ نہیں کر رہے، ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ تم خاموش تماشائی نہ بنو۔”

انہوں نے مزید لکھا:
“غزہ میں کھانا اب حق نہیں رہا، ایک ٹلتی ہوئی خواہش ہے جو ہر رات ماں کی زبان پر آتی ہے اور بچوں کی آنکھوں میں خواب بن کر تیرتی ہے۔”

برش کا کہنا ہے:
“یہاں روٹی نایاب کرنسی بن چکی ہے۔ بچوں کا دودھ محض خوراک نہیں بلکہ زندگی کا وعدہ تھا، جسے محاصرے نے چھین لیا اور اب وہ وعدہ ہسپتالوں کے بستر پر مرتے بچوں کے لبوں پر ٹوٹا ہوا خواب ہے۔”

الجزیرہ کے معروف صحافی زین العابدین توفیق کا کرب بھی لفظوں سے باہر ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
“اس امت پر افسوس ہے جو دنیا کی سب سے زیادہ دولت رکھتی ہے، مگر اس میں اگر ایک بھی بھوکا ہو تو یہ ندامت کا مقام ہے۔ پھر غزہ میں تو دو ملین انسان فاقوں پر مجبور ہیں اور ان کے بھائی آسائشوں میں گم ہیں۔ کیا یہ شرم ناک نہیں؟”

کارٹونسٹ محمود عباس نے ایک دبلی پتلی، فاقہ زدہ شخصیت کا کارٹون بنایا ہے، جس کے خالی پیٹ پر نقشہ غزہ کندہ ہے۔ گویا بھوک نے اسے نگل لیا ہو۔

یورپی انسانی حقوق کی تنظیم کے سربراہ رامی عبدو نے ایک دل دہلا دینے والی تصویر شیئر کی، جس میں ایک جانور کے کھینچے ہوئے ٹھیلے پر شہداء کی لاشیں پڑی ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو امریکی امدادی مرکز سے روٹی لینے آئے تھے اور اسرائیلی گولیوں کا نشانہ بنے۔

ڈاکٹر احمد موسیٰ العربی نے ایک فلسطینی خاتون کی ویڈیو شیئر کی ہے جس میں وہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کا وہ واقعہ یاد دلاتی ہیں جس میں انہوں نے پہاڑوں پر دانہ بکھیرنے کا حکم دیا تاکہ کوئی پرندہ بھی بھوکا نہ رہے۔ وہ کہتی ہیں:
“یا عمر! کاش تم دیکھ سکتے کہ آج کون بھوکا ہے۔ غزہ کی بھوک حد کو چھو چکی ہے۔”

ہزاروں فلسطینی تھکن، لاغری اور بیماری کی حالت میں مختلف ہسپتالوں اور طبی کیمپوں میں پہنچ رہے ہیں۔ خوراک کی عدم دستیابی، متبادل غذاؤں کی قلت، اور آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں نے حالات کو ناقابلِ برداشت بنا دیا ہے۔

بنیادی اشیاء کی قیمتیں 500 فیصد سے زائد بڑھ چکی ہیں۔ صرف آٹے کی قیمت 170 شیکل تک جا پہنچی ہے، جو ایک ہفتے میں 240 فیصد کا اضافہ ہے۔ چاول 110 شیکل فی کلو تک پہنچ چکا ہے، جبکہ جنگ سے قبل یہی اشیاء چند شیکل میں دستیاب تھیں۔

غزہ کو روزانہ 800 امدادی ٹرکوں کی ضرورت ہے، مگر اسرائیل صرف 5 فیصد ٹرکوں کو داخلے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ ناانصافی نہ صرف خوراک کی قلت بلکہ معاشی تباہی، ذخیرہ اندوزی اور بھوک کے طوفان کو بھی جنم دے رہی ہے۔

فلسطین روٹی مانگ رہا ہے، اور ہماری خاموشی اسے قتل کر رہی ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan