غزہ –(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ کی پٹی میں قائم ہسپتالوں نے گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران قابض اسرائیل کی مسلط کردہ قحط سالی اور خوراک کی شدید کمی کے باعث 7 نئے شہادتوں کی تصدیق کی ہے، جن میں ایک معصوم بچہ بھی شامل ہے۔
غزہ کی وزارت صحت نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ غزہ میں جاری اس قحط کے نتیجے میں شہداء کی مجموعی تعداد بڑھ کر 169 ہو چکی ہے، جن میں 93 بچے بھی شامل ہیں، جو عالمی برادری کے ضمیر پر ایک سنگین سوالیہ نشان ہے۔
وزارت صحت نے خبردار کیا کہ انسانی بحران مسلسل سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ خوراک اور ادویات کی شدید قلت اور ظالمانہ محاصرے نے زندگی کو موت سے بدتر بنا دیا ہے۔ ہم ایک بار پھر عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیموں اور امدادی اداروں سے فوری اور ہنگامی مداخلت کی اپیل کرتے ہیں۔
ہفتے کی صبح ایک اور نوجوان بھوک اور قحط کا شکار ہو کر شہید ہو گیا۔ یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب قابض اسرائیل کی طرف سے مسلسل محاصرہ، غذائی اشیاء اور امدادی سامان کی غزہ میں رسائی کی مکمل پابندی عائد کی گئی ہے۔
غزہ کے معروف ہسپتال ’الشفاء‘ کے طبی ذرائع نے بتایا کہ 17 سالہ نوجوان عاطف ابو خاطر، فاقہ کشی اور غذائی قلت کے باعث جان کی بازی ہار گیا۔
عاطف کے والد عاهد ابو خاطر نے غم سے نڈھال ہو کر بتایاکہ “میرے بیٹے نے پچھلے 20 دن بین الاقوامی الحلو ہسپتال میں گزارے، اس کی حالت روز بروز بگڑتی رہی کیونکہ جسم میں غذائی اجزاء مکمل ختم ہو چکے تھے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ عاطف مکمل طور پر صحت مند تھا، اس کی حالت صرف اور صرف قابض اسرائیل کی طرف سے مسلط کی گئی قحط سالی اور خوراک کی کمی کی وجہ سے بگڑی۔ “نہ کھانے کو کچھ ہے، نہ پینے کو۔ اگر کہیں کچھ دستیاب بھی ہو تو ہم خریدنے کے قابل نہیں”۔
عاطف کی زندگی کے آخری لمحات انتہائی اذیت ناک تھے۔ والد نے بتایا کہ “ہمیں کچھ گھنٹے قبل بتایا گیا کہ اسے علاج کے لیے اردن منتقل کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کی قسمت میں شہادت لکھی تھی، رب کا فیصلہ آ گیا”۔
غزہ اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین انسانی بحران سے گذر رہا ہے۔ ایک طرف ہولناک جنگ، دوسری طرف قحط، اور ان دونوں کا سامنا مظلوم عوام تنہا کر رہے ہیں۔ یہ سارا ظلم 7 اکتوبر سنہ2023ء سے جاری ہے، جب سے قابض اسرائیل نے پورے خطے کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے، اور عالمی ادارے مکمل طور پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
قابض اسرائیل نے 2 مارچ سے تمام زمینی راستے بند کر دیے ہیں، اور 18 جنوری کو طے پانے والے فائر بندی معاہدے کو یکسر مسترد کر دیا ہے، جو روزانہ 600 امدادی ٹرکوں اور 50 ایندھن بردار ٹرکوں کی آمد کا ضامن تھا۔
اس کے بعد سے غزہ کے عوام محض ذخیرہ شدہ اشیائے خوردونوش پر گزارہ کر رہے تھے، جو اب مکمل ختم ہو چکی ہیں۔ بچوں کے لیے دودھ، گوشت، مرغی، سبزیاں، دوائیں اور حتیٰ کہ صفائی کا سامان تک نایاب ہو چکا ہے۔ اس کا نتیجہ قحط اور شدید غذائی قلت کی صورت میں نکلا ہے۔
امریکی پشت پناہی سے جاری اس قابض اسرائیلی نسل کشی نے اب تک تقریباً 208,000 فلسطینیوں کو شہید یا زخمی کیا ہے، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ 9 ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں، اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ بھوک اس وقت غزہ کے ہر کونے میں موت کا پیغام بن چکی ہے۔