Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

غزہ میں بھوک کا قہر: انروا کے ملازمین کو غشی کے دورے پڑنے لگے،انسانی بحران انتہا کو پہنچ گیا

غزہ –(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اقوام متحدہ کی ذیلی ریلیف ایجنسی ’انروا‘ کی ترجمان جولیئٹ توما نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والی سنگین حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں بھوک اب اس حد تک شدت اختیار کر چکی ہے کہ ان کی ایجنسی کے کئی ملازمین دورانِ ڈیوٹی بے ہوش ہو گئے۔

منگل کے روز اقوام متحدہ کے دفتر جنیوا میں ایک اہم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے توما نے کہا کہ غزہ میں انسانی المیہ ناقابلِ تصور حد تک گہرا ہو چکا ہے۔ غاصب اسرائیلی ریاست کی طرف سے جاری محاصرہ اور نسل کش جنگ نے غزہ کو ایک ایسے عذاب میں دھکیل دیا ہے جہاں سانس لینا بھی دشوار ہو چکا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ “ہمیں غزہ سے اپنے ملازمین کی جانب سے دل دہلا دینے والی مدد کی کالیں موصول ہو رہی ہیں۔ وہ بھوک سے نڈھال ہیں اور کئی ایسے ہیں جو کام کے دوران بے ہوش ہو جاتے ہیں۔”

جولیئٹ توما نے خبردار کیا کہ “غزہ میں حالات ہر پیمانے پر الم ناک ہو چکے ہیں۔ ہمارے ’انروا‘ مراکز میں معائنے کے دوران ہر دس میں سے ایک بچہ شدید غذائی قلت کا شکار پایا گیا ہے۔ درجنوں بچے بھوک کے باعث اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں اور صرف مئی کے آخر سے اب تک 1000 سے زائد افراد امداد کا انتظار کرتے ہوئے جاں بحق ہو چکے ہیں۔”

ترجمان نے کہا کہ “غزہ اب زمین پر جہنم بن چکا ہے، یہاں کوئی جگہ محفوظ نہیں رہی۔”

جولیئٹ توما نے عالمی برادری سے فوری اقدامات کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ “ہم بین الاقوامی میڈیا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ غزہ میں داخل ہوں تاکہ یہاں جاری بربریت کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر سکیں۔”

انہوں نے قابض اسرائیلی ریاست پر شدید الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے اور بے گناہ شہریوں کے خلاف سنگین جرائم کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ “غزہ میں اجتماعی قتلِ عام ہو رہا ہے، اور قابض اسرائیل کو کوئی روکنے والا نہیں۔”

توما نے اس بات کا انکشاف بھی کیا کہ قابض اسرائیلی حکومت نے اقوام متحدہ کے ادارے ’اوچا‘ کے رابطہ افسر کی ویزا کی تجدید روک دی ہے، جو انسانی امداد کی راہ میں سنگین رکاوٹ ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ “ہماری کوئی بھی بین الاقوامی ٹیم گزشتہ چھ ماہ سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں موجود نہیں، جس کی وجہ سے امداد کی تقسیم اور زمینی حالات کا جائزہ لینا مزید مشکل ہو گیا ہے۔”

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ “اردن اور مصر میں 6 ہزار امدادی ٹرک کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کے ساتھ غزہ میں داخلے کے منتظر ہیں، مگر قابض اسرائیل کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے یہ ٹرک رکے ہوئے ہیں، جس کا نتیجہ مزید اموات اور انسانی المیے کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔”

قابض اسرائیلی ریاست کی جانب سے مارچ کے آغاز میں غزہ کی تمام گزرگاہیں بند کیے جانے کے بعد سے فلسطینی عوام شدید بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔ اکتوبر سنہ 2023ء سے اب تک غذا، امداد، ایندھن اور ادویات پر پابندی نے پورے علاقے کو قحط زدہ خطہ بنا دیا ہے۔

اب حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ لوگ اپنے گھروں میں خوراک کے ذخائر مکمل طور پر ختم کر چکے ہیں۔ دکانیں خالی پڑی ہیں اور ایک روٹی کا حصول خواب بن چکا ہے۔ جو اشیاء کہیں دستیاب ہیں، ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ بھوک سے موت اب سب سے بڑا اور خوفناک خطرہ بن چکا ہے۔

اس سارے پس منظر میں، فرانسیسی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ نے بھی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے نمائندے غزہ میں انتہائی خطرناک حالات میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ ایجنسی نے ایک بیان میں خبردار کیا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو “غزہ میں سچائی کے آخری چشم دید گواہ بھی بھوک کا شکار ہو کر جان سے جا سکتے ہیں۔”

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan