غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق نے غزہ کی پٹی کے جنوبی شہر رفح میں قائم امدادی مراکز سے غذا حاصل کرنے کی کوشش کے دوران قابض اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار کیے جانے والے کم سن بچوں کی لرزہ خیز گواہیوں پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ رہائی پانے والے ان بچوں نے انکشاف کیا کہ انہیں دوران حراست “شدید جسمانی اور نفسیاتی تشدد، ذلت آمیز سلوک اور سنگین انسانی خلاف ورزیوں” کا سامنا کرنا پڑا، حالانکہ ان کا واحد مقصد صرف بھوک سے بلکتے پیٹوں کے لیے کچھ خوراک حاصل کرنا تھا۔
امدادی مرکز کی طرف ایک بھوکے سفر کا خونی انجام
فلسطینی انسانی حقوق مرکز کی دستاویزات کے مطابق، ان بچوں کو سنہ2025ء کے جون کے آخر میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ رفح کے مغربی علاقے الشاکوش میں واقع ایک امریکی-اسرائیلی امدادی مرکز تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ گرفتاری سے قبل صہیونی فوج نے ان پر براہ راست فائرنگ کی، جس میں چار شہری شہید ہو گئے، جن میں ایک بچہ بھی شامل تھا۔ درجنوں افراد زخمی ہوئے۔
دھواں، بھوک اور زخموں کے بیچ سے واپس آئے بچے
چوبیس جولائی کو دس نابالغ بچے جب خان یونس کے ناصر میڈیکل کمپلیکس پہنچائے گئے تو وہ بدترین جسمانی اور نفسیاتی حالت میں تھے۔ یہ بچے کئی ہفتے اذیت ناک قید، مسلسل مارپیٹ، اور انسانیت سوز سلوک جھیل چکے تھے۔ انہیں صہیونیوں نے کرم ابو سالم کراسنگ پر امدادی سامان لانے والی گاڑیوں کے ساتھ چھوڑا تھا، جو وہاں سے خان یونس منتقل کیے گئے۔
مرکز کے مطابق یہ تمام واقعات، بھوک، خطرات اور گرفتاری کے دوران پیش آنے والے لمحات، اس کے بعد دوران حراست بدترین تشدد، اذیت، اور انسانی وقار کی پامالی اس منظم جرم کا حصہ ہیں جو قابض اسرائیلی افواج فلسطینی بچوں سمیت ہر عمر اور جنس کے شہریوں پر روا رکھے ہوئے ہیں۔
وہ بچے جنہیں خوراک کے بدلے زنجیریں پہنائی گئیں
رہائی پانے والے بچوں میں عماد مصطفی ابو طعیمہ (16 سال)، محمود عصام ابو حُداید (17 سال)، مؤمن ہانی ابو ہجرس (17 سال)، ہلال البشیطی (17 سال)، عمر نزار عصفور (16 سال)، فارس ابو جزر (15 سال)، کرم حسین (16 سال)، قصی الظاظا (16 سال)، احمد الحلو (17 سال) اور معاذ سالم (15 سال) شامل ہیں
قید کا آغاز: ایک نوالے کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ دی
ان میں سے ایک بچے نے بتایا کہ ’’میری ماں روز ایک روٹی دو حصوں میں بانٹتی تھی تاکہ ہم صبح اور شام کچھ کھا سکیں۔ بھوک نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم خطرات کے باوجود امدادی مرکز تک جائیں۔ میں روزانہ تین کلومیٹر دوڑ کر وہاں پہنچتا، لاشوں کو پھلانگتا، گولیوں کی بوچھاڑ سہتا، بس ایک خوراک کے ڈبے کے لیے۔ جب میں واپس آتا، اپنے بھائیوں کو کھانا کھلاتا تو وہ پہلی بار سیر ہو کر سوتے۔ انہی لمحوں میں میں جنگ، خوف اور بھوک کو بھول جاتا‘‘۔
لیکن 29 جون کو سب کچھ بدل گیا ’’اس روز صبح سویرے میں امدادی مرکز پہنچا، لیکن وہاں صہیونی فوج نے ہمیں گھیر لیا۔ ہم بچے تھے، مگر ہمیں گندی گالیاں دی گئیں، کپڑے اتروائے گئے، پلاسٹک کی رسیوں سے باندھ کر تپتی زمین پر تین گھنٹے بٹھا دیا گیا۔ پھر ہماری آنکھیں باندھ کر ہمیں کرم ابو سالم لے جایا گیا، جہاں سے ہمیں فوجی کیمپ ’سدیتمن‘ منتقل کیا گیا۔ وہاں ہمیں شدید مارا گیا، کپڑے دوبارہ اتروائے گئے اور پھر ایک ’ڈسکو‘ نامی کمرے میں تفتیش کا آغاز ہوا‘‘۔
ڈسکو روم میں اذیت: بہرا پن، نیلا جسم اور ماں کو لے کر دھمکیاں
’’ایک فوجی شہری لباس میں تھا، دوسرا وردی میں۔ انہوں نے مجھے میرے پیروں اور کمر پر مارا، تھپڑ مارے یہاں تک کہ میرا کان بہنے لگا اور میں اپنی بائیں کان سے سننے کی صلاحیت کھو بیٹھا۔ انہوں نے میری ماں کو میرے سامنے لانے کی دھمکی دی، کہا کہ اگر میں اعتراف نہ کروں تو اس کے ساتھ زیادتی کریں گے۔ مجھے تنہا کوٹھڑی میں ڈال دیا گیا، بھوکا پیاسا، صرف کان پھاڑتی موسیقی سنتا رہا۔ جب میری حالت بگڑ گئی، تب بھی ڈاکٹر نے دوا کے بجائے صرف درد کم کرنے کی گولی دی‘‘۔
رات کے سائے میں خوفناک حملے
’’روزانہ رات کو سپاہی ہماری کوٹھڑی میں آتے، مار پیٹ کرتے، لاٹھیاں مارتے، آنسو گیس اور ساؤنڈ بم پھینکتے۔ زخمیوں کو طبی امداد نہیں دی جاتی تھی۔ میں بار بار مرگی کے دوروں میں مبتلا ہوا، خون بہتا رہا۔ ایک بار مجھے وہیل چیئر پر ڈال کر پھر تفتیش کے لیے لے جایا گیا۔ تین دن بعد جب دوبارہ مجھے ڈسکو روم میں لایا گیا تو میرے جسم کا رنگ نیلا پڑ چکا تھا‘‘۔
موت کی مشقیں: بچوں پر بندوقیں، دیوار کے پیچھے خواتین، اور پانچویں منزل سے پھینکنے کی دھمکیاں
ایک اور بچے نے بتایاکہ ’’ہمیں ایک بند جگہ پر لے جایا گیا، کپڑے اتروائے گئے، کچھ خواتین کو دیوار کے پیچھے لے گئے، ہم نہیں جان سکے ان کے ساتھ کیا ہوا۔ ہم سب پر نمبر لکھ دیے گئے۔ ہمیں لگا اب ہمیں قتل کیا جائے گا۔ مجھے ایک عمارت میں لے جایا گیا، جو بعد میں پتا چلا کہ حمد ہسپتال ہے۔ وہاں ہمیں فائرنگ کے بیچ کھڑا کر کے ڈرایا گیا، پھر ایک فوجی نے مجھے گردن اور ٹانگ سے پکڑ کر کہا کہ میں تجھے پانچویں منزل سے پھینک دوں گا۔ پھر مجھے رسی سے باندھ کر لٹکایا، زمین سے آدھا میٹر اوپر رکھا اور کہا اب تجھے مار ڈالوں گا‘‘۔
تحقیقات کے بہانے مسلسل اذیت
’’چار دن بعد مجھے انٹیلی جنس کے سامنے پیش کیا گیا، روزانہ چار گھنٹے کی تفتیش، سوال حماس، سرنگوں، قیدیوں، کیمروں اور دھماکہ خیز مواد کے بارے میں۔ میں کچھ نہ جانتا تھا، اس لیے مجھے مسلسل مارا گیا۔ پھر مجھے ڈسکو روم میں لے جایا گیا، جہاں میں سات دن فرش پر پڑا رہا، آنکھوں پر پٹی، ہاتھ پاؤں بندھے، خوراک نہایت کم اور ناقص۔ پھر دوبارہ پرانی کوٹھڑی میں منتقل کر دیا گیا، جہاں میں رہائی تک پڑا رہا‘‘۔
بھوک اور امداد کو ہتھیار بنا کر نسل کشی کا کھیل
مرکز برائے انسانی حقوق نے واضح کیا کہ امدادی مراکز کی یہ تقسیم نہ صرف بنیادی انسانی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ ایک سیاسی اور فوجی منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد فلسطینی شہریوں کا قتل، بھوک کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا اور فروری سنہ2025ء میں اعلان کردہ جبری ہجرت کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا ہے۔
مرکز نے امدادی مراکز میں بچوں کے خلاف کارروائی کی شدید مذمت کی اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر ان مظالم کا سدباب کرے، نسل کشی روکے، تمام گرفتار بچوں کو رہا کرایا جائے اور بین الاقوامی قوانین کے تحت ان کے انسانی و قانونی حقوق کا احترام یقینی بنائے۔
مزید برآں، مرکز نے عالمی اداروں اور ریاستوں سے مطالبہ کیا کہ وہ قابض اسرائیل پر فوری دباؤ ڈالیں کہ وہ عالمی عدالت انصاف کے ان احکامات پر عمل کرے جن میں اسے غزہ کے شہریوں کو بنیادی انسانی امداد فراہم کرنے، زمینی راستے مستقل طور پر کھولنے اور امداد کی ترسیل میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالنے کا پابند کیا گیا ہے۔