غزہ –(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ کی تین سالہ ننھی بچی ملک حناوی اب کھڑے ہونے کے قابل بھی نہیں رہی۔ قابض فاشسٹ صہیونی ریاست کی طرف سے مسلط کی گئی قحط کی مجرمانہ پالیسی کی وجہ سے بھوک نے اس کا جسم چوس لیا ہے، وزن خطرناک حد تک گر چکا ہے۔ اس کے والدین معمولی سا آٹا، تھوڑا سا کھانا یا دوا بھی مہیا کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں اور گھر کی سب سے چھوٹی جان اس اذیت کا سب سے بڑا خمیازہ بھگت رہی ہے۔
ماں سمیہ کی آنکھوں سے بہتے آنسو الفاظ سے پہلے نکلتے ہیں۔ وہ لرزتی آواز میں بتاتی ہیں کہ “ہمارے پاس کچھ کھانے کو نہیں رہا۔ ہم نمک میں پانی ابالتے ہیں اور خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں۔ تمام خوراک ختم ہو چکی ہے۔ چند ڈبے جو کبھی خیمے میں تھے وہ بھی نہیں رہے۔ ہمارے چار بچے ہیں اور ان کے لیے کھانے کا ایک لقمہ بھی نہیں”۔
یہ صرف ایک کہانی نہیں۔ غزہ میں لاکھوں فلسطینیوں پر مسلط کی گئی جنگِ بھوک نے انسانیت کو شرما دینے والی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ 2 مارچ سنہ2025ء سے قابض اسرائیل نے خوراک اور طبی امداد کی بندش کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، جس سے قحط کی لہر تیزی سے پھیل رہی ہے۔ چھ لاکھ پچاس ہزار بچے فوری موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
طبی ذرائع کے مطابق غزہ میں بھوک کی اس جنگ میں شہداء کی تعداد 86 ہو چکی ہے، جن میں 76 معصوم بچے شامل ہیں۔ قابض اسرائیل کا محاصرہ سخت سے سخت تر ہوتا جا رہا ہے، جبکہ صحت و انسانیت کا نظام زمین بوس ہو چکا ہے۔
منگل کی صبح، طبی اداروں نے بتایا کہ تین بچے بھوک، کمزوری اور علاج کی عدم دستیابی کے باعث شہید ہو گئے۔ 14 سالہ عبد الحمید الغلبان خان یونس سے، نوزائیدہ یوسف محمد الصفدی الشفاء ہسپتال سے اور وسطی غزہ سے احمد الحسنات نے جان کی بازی ہار دی۔ یہ سب شدید غذائی قلت اور طبی نگہداشت کے فقدان کے شکار تھے۔
گذشتہ دو روز میں مختلف علاقوں میں 23 افراد بھوک اور پانی کی قلت سے دم توڑ چکے ہیں۔
ہسپتالوں میں ایمرجنسی وارڈز پر بے پناہ دباؤ ہے۔ بوڑھے، جوان، بچے، سب ایک جیسے کمزوری، نقاہت اور جسمانی خستہ حالی کا شکار ہو کر اسپتالوں کا رخ کر رہے ہیں۔
محکمہ صحت کے مطابق، غزہ میں دماغی بخار کے کیسز کی تعداد 600 سے تجاوز کر چکی ہے۔ دوا کی قلت اور آلودگی کی وجہ سے وباؤں کے پھیلنے کا خدشہ شدت اختیار کر چکا ہے۔
فیلڈ ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بچوں میں شدید غذائی قلت، وٹامنز کی کمی، اور ہڈیوں کے ابھرتے ڈھانچے عام ہوتے جا رہے ہیں۔ حاملہ خواتین ایسے بچے جن رہی ہیں جن کا وزن ڈیڑھ کلوگرام سے بھی کم ہوتا ہے۔ بچوں کے لیے دودھ کی ایک ڈبیا خواب بن چکی ہے، اور روٹی اب ایسی نعمت بن گئی ہے جو صرف چند خوش نصیبوں کو میسر ہے، کیونکہ اس کی قیمت 100 گنا بڑھ چکی ہے۔
صاف پانی بھی ایک خواب
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال’یونیسف‘ نے خبردار کیا ہے کہ قحط غزہ میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور بچوں میں غذائی قلت جان لیوا حد تک جا پہنچی ہے۔
یونیسف کے مطابق انسانی بحران بدترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ خوراک کی شدید قلت، صاف پانی کا فقدان، اور امدادی ٹیموں کی رسائی میں حائل رکاوٹیں صورتحال کو ناقابل برداشت بنا رہی ہیں۔
دیر البلح کے محمود نصار کا کہنا ہے کہ پانی کی قلت نے ان کا جینا محال کر رکھا ہے۔ وہ ہر تین دن بعد 100 شیکل صرف کرتے ہیں تاکہ گھر والوں کی پانی کی معمولی ضرورت پوری کی جا سکے۔
بلدیہ غزہ کے مطابق، فی فرد یومیہ پانی کا حصہ پانچ لیٹر سے بھی کم ہے۔ نہانے، کھانے، پینے، اور دیگر ضروریات کے لیے یہی پانی دستیاب ہے۔ موجودہ پانی کے کنویں صرف 12 فیصد روزمرہ ضروریات پوری کر پاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی امور، اوچا نے واضح کیا ہے کہ غزہ کی حالت ’’تاریخ کی بدترین سطح‘‘ تک پہنچ چکی ہے۔ ان کے مطابق، جو امداد غزہ میں داخل ہو رہی ہے، وہ انتہائی ناکافی ہے۔ غذائی قلت بڑھتی جا رہی ہے اور جو بمباری سے بچ گیا ہے وہ اب بھوک سے مرنے کے قریب ہے۔
اوچا کے مطابق، 21 لاکھ انسان غزہ کی 12 فیصد زمین میں سمٹ چکے ہیں، جہاں خوراک، پانی، دوا کچھ بھی نہیں۔ ہسپتال زخمیوں کے رش سے لبریز ہیں، لیکن ضروری سازوسامان کا فقدان انہیں بے بس کیے ہوئے ہے۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی انروا نے بتایا کہ مارچ سے جون سنہ2025ء کے درمیان پانچ سال سے کم عمر بچوں میں غذائی قلت کی شرح دوگنی ہو چکی ہے۔ انروا کے طبی مراکز نے اس مدت میں تقریباً 74 ہزار بچوں کا معائنہ کیا، جن میں سے 5500 بچوں میں شدید غذائی قلت کی تشخیص ہوئی، اور 800 سے زائد بچوں کی حالت نازک ترین درجے پر تھی۔
شواہد جھوٹ کی قلعی کھول رہے ہیں
غزہ کی سول سوسائٹی نے عالمی ادارہ خوراک (WFP) کے حالیہ بیانات پر شدید ناراضی کا اظہار کیا ہے، جن میں شہریوں کو امدادی ٹرکوں کے قریب موجود ہونے پر ہی مورد الزام ٹھہرایا گیا۔
منگل کو جاری بیان میں سول سوسائٹی نے کہا کہ عالمی ادارہ خوراک نے اسرائیلی مجرمانہ پالیسیوں کو نظرانداز کیا ہے، جو دانستہ طور پر فلسطینیوں کو بھوکا مرنے پر مجبور کر رہا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ قابض اسرائیل ہی ہے جو امدادی راستے کھولنے سے انکاری ہے، اور خوراک، دوا اور پانی کی ضروری مقدار داخل نہیں ہونے دے رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کو ٹرکوں سے دور رکھنا، اور بین الاقوامی اداروں کے مراکز تک امداد کی رسائی روک دینا اسرائیلی ارادوں کی عکاسی کرتا ہے۔
شہری تنظیموں نے عالمی ادارہ خوراک سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو براہ راست اس تباہ کن بھوک کی ذمہ داری کا مجرم قرار دے۔ انہوں نے بین الاقوامی اداروں سے واضح موقف اختیار کرنے، اور فوری طور پر حل نکالنے کا مطالبہ کیا، کیونکہ بحران اب ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔
قحط، معاشی تباہی اور موت کا رقص
غزہ کے عوام خوراک، معیشت، ہر سطح پر تباہی کا شکار ہو چکے ہیں۔ آٹے کی قیمت سنہ2023ء کے اکتوبر میں شروع ہونے والی نسل کشی کے بعد 3000 گنا بڑھ چکی ہے۔
یہ صرف بھوک کا معاملہ نہیں رہا۔ یہ اجتماعی، سست رو موت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ کوئی وقتی انسانی بحران نہیں، بلکہ ایک سوچا سمجھا جرم ہے۔ ایک ایسا عمل جس میں نہتے شہریوں کو بھوک سے مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، صرف اس لیے کہ ان تک روٹی نہ پہنچ سکی، یا ایک وقت کا کھانا منصفانہ طور پر تقسیم نہ ہوا، یا کوئی امدادی گزرگاہ کھولی نہ گئی، یا کھانے کی کوئی گاڑی غریبوں کی نظروں کے سامنے لوٹ لی گئی۔