غزہ –(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ پر قیامت ڈھانے والی جنگ کا آغاز ہوا تو قابض اسرائیل نے یہ گمان کیا کہ ایک اور خونی یلغار، ایک اور جارحیت شاید اس کی کھوئی ہوئی ساکھ واپس لا سکے گی۔ اس نے ایک ایسی جنگ چھیڑی جس کا مقصد صرف اور صرف تباہی تھا۔ مگر وہ ایک حقیقت کو بھول گیا تھا — کہ آج کا دور کیمرے کا زمانہ ہے، تصویروں کا دور ہے۔ ہر ظلم، ہر درندگی، ہر قتلِ عام اب کیمرے کی آنکھ میں قید ہو رہا ہے، اور یہی بھیانک مناظر فاشسٹ صہیونی بیانیے کو زمین بوس کر رہے ہیں۔
قابض اسرائیل نے اپنی پوری عسکری طاقت کو امریکہ کی بےمثال پشت پناہی سے غزہ کے خلاف جھونک دیا۔ اسے گمان تھا کہ دنیا اندھی اور بہری ہے، سچ کبھی سامنے نہیں آئے گا۔ مگر غزہ کے نہتے عوام اور ان کی مزاحمت نے وہ کر دکھایا جس کی دشمن کو توقع نہ تھی۔ اسرائیلی ٹینکوں اور طیاروں کے مقابلے میں ایک کیمرہ ہی کافی ثابت ہوا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا نے وہ دیکھ لیا جو اسرائیل برسوں سے چھپاتا رہا۔
خانیونس کی جلتی بستیاں، جبالیہ کے کھنڈرات، المعمدانی اسپتال میں لاشوں کے انبار، ماں کے ہاتھ میں بچے کا کٹا ہوا بازو، اور امدادی مراکز پر بمباری — یہ سب اب دنیا کے سامنے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ میڈیا ادارے بھی اسرائیل کا ساتھ چھوڑ گئے جنہوں نے برسوں اس کے بیانیے کو سہارا دیا۔
سیاسی بحران اور عالمی فوجداری
اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے قابض اسرائیل نے جھوٹ کا سہارا لیا۔ حماس پر بےبنیاد الزامات لگائے، الشفاء میڈیکل کمپلیکس کے نیچے جعلی سرنگوں کی کہانی تراشی، اور خالی کمروں کو اذیت خانے قرار دیا۔ مگر سچ کی طاقت نے ان تمام جھوٹوں کو بےنقاب کر دیا۔
اسرائیلی اخبار ہارٹز کے مشہور صحافی جدعون لیوی نے لکھا:
“جو کچھ غزہ سے سامنے آ رہا ہے، وہ اسرائیلی نسل کشی کا کھلا ثبوت ہے۔ سوال باقی نہیں رہتے۔”
جبکہ نیویارک ٹائمز کے دیرینہ اسرائیل حامی کالم نگار تھامس فریڈمین نے اعتراف کیا:
“یہ حکومت اسرائیل کی نہیں رہی، یہ امریکہ کے مفادات کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔”
غزہ خود بول رہا ہے۔ سچ خود کو منوا رہا ہے۔ صحافی جاسم الغزاوی کے مطابق:
“پہلے اسرائیلی جھوٹ مغربی میڈیا کے دروازوں میں محفوظ ہوتے تھے، اب موبائل فون نے وہ دروازے توڑ دیے ہیں۔ آج ہم وہ دیکھ رہے ہیں جو غزہ دکھا رہا ہے، نہ کہ وہ جو اسرائیل سنانا چاہتا ہے۔”
ٹک ٹاک، انسٹاگرام، واٹس ایپ، اور ایکس جیسے پلیٹ فارمز پر تصاویر اور ویڈیوز کی طاقت نے نسلوں کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ اب اسرائیل صرف اپنے پڑوسیوں سے نہیں، ایک بےرحم سچائی سے لڑ رہا ہے — جو کیمرے کی آنکھ سے براہِ راست دکھائی دے رہی ہے۔
خود اسرائیلی معاشرہ ایک داخلی بحران کا شکار ہے۔ جو قوم ہمیشہ دنیا کو اپنے دکھ سناتی رہی، آج وہی عالمی ضمیر کے کٹہرے میں کھڑی ہے۔ تصویریں چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں کہ ظلم کون کر رہا ہے۔ حتیٰ کہ اعتدال پسند اسرائیلی بھی سوچنے پر مجبور ہیں:
“کیا ہم واقعی اخلاقی برتری رکھتے ہیں؟ یا دنیا نے اب ہمارا اصل چہرہ دیکھ لیا ہے؟”
یہی تصویریں اب عالمی سفارتی محاذ پر اسرائیل کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں عوامی دباؤ کے تحت ارکانِ پارلیمنٹ اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے، تجارتی معاہدوں اور سیاسی پشت پناہی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ان کے ای میل انباکسز شہید بچوں کی تصاویر، چیختی ماؤں اور تباہ شدہ اسکولوں کی ویڈیوز سے بھر چکے ہیں۔
قابض اسرائیل کا عالمی تعاقب
قابض اسرائیل کے فوجی اب صرف فلسطینیوں سے نہیں، عالمی عدالتوں سے بھی خوفزدہ ہیں۔ انہیں ہدایت کی جا چکی ہے کہ سیلفی نہ لیں، تباہ شدہ گھروں کی ویڈیوز نہ بنائیں — کیونکہ یہی مناظر اب ان کے خلاف ثبوت بن رہے ہیں۔ کئی اسرائیلی افسران بیرونِ ملک گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہو چکے ہیں۔
مارچ میں اسرائیل نے جب اپنی نسل کشی کی مہم دوبارہ تیز کی تو “انٹرنیشنل سینٹر فار جسٹس فار فلسطین” نے “گلوبل 195” کے نام سے ایک مہم شروع کی — جس کا مقصد جنگی جرائم میں ملوث اسرائیلی فوجی، افسران اور سیاستدانوں کے خلاف دنیا بھر میں قانونی چارہ جوئی کرنا ہے۔ مرکز کے ڈائریکٹر طیب علی کے مطابق:
“ہمارے پاس ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں جنہیں بین الاقوامی عدالتوں میں پیش کیا جائے گا۔”
برطانیہ، کینیڈا، ترکیہ، ناروے، ملائیشیا اور بوسنیا جیسے ممالک کے وکلاء اور سماجی تنظیمیں اس اتحاد کا حصہ بن چکی ہیں، تاکہ عالمی سطح پر جنگی مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔
بالآخر اقوامِ متحدہ کی نمائندہ فرانسسکا البانیز نے وہ سوال اٹھا دیا جو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے:
“کیا یورپی ممالک اس شخص کو اپنی فضائی حدود سے گزرنے دیں گے جو عالمی عدالت میں مطلوب ہے؟”
ان کا اشارہ نیتن یاہو کی طرف تھا — جو اب صرف ایک وزیراعظم نہیں، بلکہ ممکنہ جنگی مجرم ہے۔
اسرائیلی جھوٹ کی شکست
جب اسرائیل کے جرائم بےنقاب ہونے لگے اور دنیا بھر میں نفرت کا طوفان اٹھا، تو اس کے پاس چھپنے کے لیے صرف ایک ہتھیار بچا: جھوٹ۔
قابض اسرائیلی حکومت نے الشفاء اسپتال کے نیچے مزاحمتی سرنگوں کی جھوٹی کہانی تراشی، خالی کمروں کی ویڈیوز دکھا کر دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کی۔ مگر حقیقت کے سامنے یہ فریب بھی زیادہ دیر نہ چل سکا۔
روزانہ کی بنیاد پر جھوٹ گھڑنے اور میڈیا پر حاوی رہنے کی کوشش کی گئی، مگر کیمروں نے سب کچھ دکھا دیا — معصوم بچوں کی لاشیں، اجڑی گودیں، زخمی جسم، اور ملبے میں دبے خواب۔
یہ سچ اب صرف خبروں کا حصہ نہیں رہا، یہ انصاف کی بنیاد بن چکا ہے۔
میدانِ جنگ سے آنے والی ویڈیوز میں اسرائیلی فوجیوں کو قیدیوں کو اذیت دیتے، شہداء کی لاشوں پر قہقہے لگاتے، اور امدادی مراکز پر گولیاں برساتے دکھایا گیا۔ اب یہ صرف فلسطینیوں کی گواہی نہیں، بلکہ خود اسرائیلی کیمرے، ان کے موبائل، ان کی زبانیں بھی اس گھناؤنے سچ کی تصدیق کر رہی ہیں۔