تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
فلسطین کے دشمنوں امریکہ ، برطانیہ اور ان کی ناجائز اولاد اسرائیل کو یہ بات جان لینی چاہئیے کہ اسلامی مزاحمت کے رہنمائوں اور کمانڈروں کو قتل کرنے سے مزاحمت کبھی نہیں رکے گی اور نہ ہی کمزور ہو گی بلکہ مزید طاقتور ہو گی۔ اسلامی مزاحمت کے کمانڈروں کو لبنان، شام،عراق اور ایران سمیت فلسطین میں قتل کرنا دراصل غاصب صیہونی حکومت کی شکست کا ایک نمونہ ہے۔جو جنگ غزہ میں غاصب صیہونی حکومت ایک چھوٹے سے گروہ کے سامنے جیتنے سے قاصر ہے اس جنگ میں اسلامی مزاحمت کے کمانڈروں کو مختلف ممالک میں دہشتگردانہ کاروائیوں میں قتل کرنے سے نہیں جیت سکے گی۔
یوں تو اسلامی مزاحمت کے شہداء کی ایک طویل فہرست بھی موجو دہے اور تاریخ بھی ہے۔لیکن ہم صرف یہاں پر شہید عماد مغنیہ سے لے کر شہید اسماعیل ھانیہ تک چند شہادتوں اور ان کے اثرات کی بات کریں تو یقینی طورپر مقالہ کے مقاصد کا حصول ہو گا۔
شہید عماد مغنیہ جو کہ فلسطین کی آزادی کے ایک مایہ ناز کمانڈر تھے ان کو شام کے دارلحکومت دمشق میں غاصب صیہونی دہشت گردی میں شہید کیا گیا۔شہید قاسم سلیمانی جو کہ ایران کی القدس فورس کے کمانڈر تھے ان کو بغداد میں امریکی دہشت گردانہ کاروائی میں شہید کیا گیا۔اسماعیل ھانیہ جو کہ سابق وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں اور ایک سفارتکار کی حیثیت رکھتے تھے اور حماس کے سربراہ بھی تھے ان کو ایران کے دارلحکومت تہران میں امریکی و صیہونی دہشت گردی میں شہید کیا گیا۔اب ان تین شہادتوں کو دیکھا جائے تو مشاہدے میں آتا ہے کہ اسلامی مزاحمت کا خون لبنان سے شام تک اور اسی طرح ایران سے عراق تک اور فلسطین سے تہران تک آتا ہے جو نہ صرف دشمن کے ناپاک عزائم کو ناکام کرتا ہے بلکہ جس جس سرزمین پر جاتا ہے وہاں اتحاد اور باہمی رشتوں کی مضبوطی کا باعث بنتا ہے اور یہی کچھ شہید عماد مغنیہ سے لے کر اسماعیل ھانیہ تک ہوا ہے۔
ہر ایک کمانڈر ہمیشہ سے شہادت کا طلبگار رہا ہے۔شہادت ہی ان کی منزل رہی ہے۔کبھی بھی مزاحمت کے کمانڈر شہادت سے دور نہیں بھاگتے ۔یہی تمنا اور آرزو شہید اسماعیل ھانیہ بھی رکھتے تھے اور وہ اپنی مراد پاکر شہید ہو گئے ۔
سوال یہ ہے کہ کیا ان کمانڈروںکو شہید کرنے سے مزاحمت کا راستہ روک لیا گیا ہے ؟ اس بات کا جواب مشاہدے سے دیا جاتا ہے کہ جب شہید عماد مغنیہ کو نشانہ بنایا گیا اس کے بعد شام اور لبنان میں حزب اللہ کی مزاحمت مزید تقویت کا باعث بنی اور شہید عماد مغنیہ کے خون سے ہزاروں عماد مغنیہ جیسے جوانوں نے جنم لے لیا اور آج بھی حاج رضوان کے راستے پر گامزن ہیں صرف یہی نہیں بلکہ فلسطین کے مقبوضہ علاقو ں تک شہید عماد مغنیہ کے خون کی تاثیر نے اثر کیا اور فلسطینی نوجوانوں نے شہید عماد جن کو حاج رضوان کہا جاتاتھا فلسطین کے اندر حاج فلسطین کہا جانے لگا۔
جب شہید قاسم سلیمانی کو شہید ابو مہدی المہندس کے ساتھ نشانہ بنایا گیا تو یہ بات مشاہدے میں آئی کے پورے خطے میں خاص طور پر مزاحمت کی کاروائیوں میں تیزی آئی اور ہر جوان شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی مہندس کی سیرت پر چلنے لگا اور ان کی بے مثال قربانیوں سے درس حریت حاصل کرنے لگا۔ یہ حریت کا پیغام صرف مسلمان ممالک اور مغربی ایشیائی ممالک تک باقی نہیں رہا بلکہ دنیا کے تمام ممالک کی سرحدوں کو چیرتا ہو مغربی دنیا کے نوجوانوں کو بھی متاثر کرنے لگا اور آج تک پوری دنیا میں نوجوان اور حریت پسند ان شہداء کو اپنا رول ماڈل قرار دیتے ہیں۔آج بھی امریکہ اور یوری ممالک میں شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی مہندس کی تصاویر لگائی جاتی ہیں، فلسطینیوں کے گھروں میں ان شہداء کی تصاویر لگائی جا رہی ہیں۔ یہ وہ حرکت اور مزاحمت ہے جسے امریکی و صیہون دشمن ان کمانڈروں کے قتل کے بعد بھی روک نہیں پایا ہے۔ شہید قاسم سلیمانی جس قدر زندگی میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل اور امریکہ جیسے خونخواروں کےلئے خطر ناک تھے وہ شہادت کے بعد اس سے بھی دو گنا زیادہ خطر ناک ہو گئے ۔
اب جبکہ ایک عظیم مجاہد شہید اسماعیل ھانیہ کو تہران میں عالمی دہشت گرد امریکی حکومت اور غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے اپنی دہشت گردانہ کاروائی کا نشانہ بنادیا ہے اور انہیں شہید کیا ہے تو دنیا یہ بات اچھی طرح جان لے کہ شہید کی شہادت سے نہ تو مزاحمت میں کوئی کمی آئے گی اور نہ ہی دنیا میں مزاحمت کا راستہ روکا جا سکے گا۔ بلکہ ایک اہم ترین چیز جو شہید کے قتل کے فوری بعد سامنے آ رہی ہے وہ ایرانی اور فلسطینی قوم کے رشتوں کی مزید مضبوطی اور استحکام ہے۔جو دشمن کا سب سے بڑا ہدف تھا اور دشمن اس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔
شہید اسماعیل ہنیہ نے اپنی جان اپنے دین اور، نصب العین اور اپنےوطن کے لیے دی۔ وہ ایک مجاہد اور شاندار سیاست دان کے طور پر زندہ رہے۔ ایک ٹریڈ یونینسٹ کے طور پر وہ قابض ریاست کی جیلوں میں قید کیے گئے۔ وہ ساری زندگی اپنے ملک اپنےنصب العین اور فلسطینی کاز کی خدمت میں مگن رہے۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی ہمت نہیں ہارے۔ اپنے بچوں اور خاندان کی قربانی دی مگر اپنے مشن پر ڈٹے رہے۔ ھنیہ کی شہادت کے ردعمل میں ہم دنیا کو یہی کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے بھائی کمانڈر اسماعیل ھنیہ پر فخر ہے۔ ہم ان کی شہادت پر ان پر رشک کرتے ہیں۔ انہوں نے نیکی کی راہ میں جان نثارکی۔وہ جنت کے راستے پر چلے اور جنت پہنچ گئے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ دشمن یہ بات اچھی طرح جان لے کہ مزاحمتی مشن جاری رہے گا۔فلسطینی عوام 76 سال سے اپنے مقصد اور وطن کے دفاع کے لیے مزاحمت کے راستے پر ہیں۔ مزاحمتی مشن کسی رہنما یا کسی اور کی شہادت سے نہیں رکے گا۔فلسطینی ہمیشہ ثابت قدمی سے اپنے وطن کا دفاع کرتے آئے ہیں ۔نہ صرف وطن بلکہ امت کے شعائر کا دفاع کیا ہےاور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔
یقینا اسماعیل ھانیہ کی شہادت کا یہ واقعہ بہت زیادہ تکلیف دہ ہے، لیکن جولوگ اپنے قائدین اور اسلامی مزاحمت کے کمانڈروں سے محبت کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ دردناک اور سنگین واقعہ کسی بھی طرح امریکہ اور اسرائیل جیسی خونخوار دہشت گرد ناجائز حکومت کی کامیابی نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ دشمن نے ایسا کیوں کیا ؟یہ ہر گز قابض صیہونی ریاست کی کامیابی نہیںہے ، لیکن دشمن نے ایسا کیوں کیا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ دشمن نے طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے ہی مزاحمت کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ہمیشہ ناکام رہے۔دشمن نے اس کو کئی طریقوں سے بیان کیا تاکہ یہ دنیا میں الگ تھلگ ہو جائے لیکن وہ حیران رہ گئے کہ اسمٰعیل ہنیہ روس سے لے کر ملائیشیا تک ایران سے قطر تک مصر سے ترکیہ تک ، لبنان سے لے کر الجزائر تک اور موریطانیہ سے مراکش تک کئی بین الاقوامی، عرب اور اسلامی دارالحکومتوں میں سفر کرتے رہے۔ آخر دشمن نے تہران میں ہی کیوں ان کو قتل کیا ؟ یہ سوال اہم ہے۔دشمن چاہتا تھا کہ مزاحمت اور ایران کے تعلقات میں دراڑ پیدا ہو لیکن حالات اور نتائج نے ثابت کر دیا ہے کہ مزاحمت مزید طاقتور ہو رہی ہے اور ہمارا اتحاد مزید تقویت حاصل کر رہاہے۔دشمن اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو گا اور کمانڈروں کے قتل کرنے سے مزاحمت نہیں رکے گی اور نہ ہی کمزور ہو گی۔