برلن (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) جرمنی کی وفاقی وزارت نے برلن میں ایک خاتون وکیل کو غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت کی مخالفت کی وجہ سے ان کی سرکاری ملازمت سے برطرف کر دیا ہے۔
جرمن وکیل ایڈووکیٹ میلانیا شوئزر نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے میری ملازمت سے، جرمن وفاقی وزارت میں میری سرکاری ملازمت سے نکال دیا گیا ہے‘‘۔
اس نے مزید کہاکہ “کیوں؟” کیونکہ میں فلسطین میں اسرائیل کی طرف سے کی جانے والی نسل کشی کے خلاف، جرمنی کی جانب سے اس نسل کشی کی حمایت کے خلاف ہوں، تشدد کے خلاف اور وہاں ہونے والے جرائم کے خلاف بات کر رہی ہوں۔
انہوں نے لکھا کہ”یہ جرمنی کی صورتحال ہے، یہ آزادی اور اظہار رائے اور آزادی کے ہمارے آئینی اور بنیادی حقوق پر ایک صریح حملہ ہے”۔
میلانیا نے غزہ کے حامیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنا موقف کھل کر بیان کریں۔انہوں نے کہا کہ “بولتے رہو اور اپنی آواز بلند کرو، اپنی ملازمت سے محروم ہونا سب سے بری چیز نہیں ہے جو آپ کے ساتھ ہو سکتی ہے، لیکن اپنی جان گنوانا بدترین نقصان ہے اور ساتھ ہی اپنے حقوق کو کھونا بہت تکلیف دہ ہے”۔
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، کیونکہ اس سے قبل بھی کئی یورپی اور امریکی کمپنیاں غزہ جنگ پر اپنے موقف اور نسل کشی کو مسترد کرنے کی وجہ سے اپنے ملازمین کو فارغ کر چکی ہیں۔
چند روز قبل امریکی کمپنی مائیکرو سافٹ نے قابض اسرائیل فوج کو مصنوعی ذہانت کی خدمات فراہم کرنے پر احتجاج کرنے پر 5 ملازمین کو کمپنی سے نکال دیا تھا۔ اکتوبر 2024 میں اسی کمپنی نے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت کے متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے واشنگٹن ڈی سی میں کمپنی کے ہیڈ کوارٹر کے اندر احتجاجی مظاہرہ کرنے کے بعد اپنے دو ملازمین کو نوکری سے نکال دیا تھا۔
رواں سال 22 جنوری کو واشنگٹن پوسٹ نے انکشاف کیا کہ گوگل نے گذشتہ سال اپنے 50 سے زائد ملازمین کو برطرف کر دیا تھا جب انہوں نے “نمبس” کے نام سے جانے جانے والے معاہدے پر احتجاج کیا تھا، جس میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا یہ پروگرام گوگل کی ٹیکنالوجی کو فوجی اور انٹیلی جنس پروگراموں کی مدد کرنے اور اسرائیلی فوج کی طرف سے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف جنگ میں استعمال کیا جاتا ہے۔