غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ کی بلدیہ نے خبردار کیا ہے کہ شہر میں پانی اور نکاسی آب کا نظام مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ ایندھن کی شدید قلت اور قابض اسرائیل کی جانب سے بنیادی ڈھانچے پر مسلسل بمباری نے صورتحال کو اس نہج پر لا کھڑا کیا ہے کہ لاکھوں فلسطینیوں کو اجتماعی پیاس اور شدید صحت و ماحولیاتی تباہی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
بلدیہ کے ترجمان حسنی مہنا نے ہفتے کے روز ایک پریس بیان میں کہا کہ ’’ہم اجتماعی پیاس کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ حالات کسی بھی لمحے قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔ ہم تمام بین الاقوامی اور انسانی اداروں سے فوری مداخلت کی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اسرائیلی جنگ بند کروائیں، گذرگاہیں کھلوائیں اور ایندھن و ضروری سازوسامان کی فراہمی یقینی بنائیں تاکہ ممکنہ تباہی کو روکا جا سکے‘‘۔
انہوں نے بتایا کہ جنگ کے باعث سینکڑوں فلسطینی خاندان غزہ کے ساحل کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں، جہاں پانی ہے نہ کوئی بنیادی سہولت میسر ہے۔ ان علاقوں میں خدمات نہ پہنچنے کی بڑی وجہ اسرائیلی حملوں سے تباہ شدہ بنیادی ڈھانچہ ہے، خاص طور پر شہر کے جنوب مغربی علاقوں میں، جہاں زمینی اور فضائی حملوں نے ہر چیز کو ملبے میں بدل دیا ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ پانی کی عدم دستیابی نے اہل غزہ کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ گندے پانی کے اخراج کے لیے بے ہنگم طریقے سے سینکڑوں گڑھے کھودیں، جو زیر زمین پانی کے ذخائر کو آلودہ کرنے اور مہلک وباؤں کے پھیلاؤ کا بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ نکاسی آب کے مؤثر نظام کی غیر موجودگی نے اس خطرے کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔
حسنی مہنا نے خبردار کیا کہ پانی کی قلت بالخصوص ان علاقوں میں جہاں متاثرہ لوگ پناہ لیے ہوئے ہیں، انسانی بحران کو شدید تر کر رہی ہے۔ قحط کی وبا اور بنیادی ضروریات زندگی کی عدم دستیابی نے غزہ کو ایک ایسی ماحولیاتی اور صحت کی تباہی کے کنارے لا کھڑا کیا ہے، جس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔
انہوں نے کہا: ’’ہم بنیادی خدمات کے مکمل انہدام کا سامنا کر رہے ہیں، بالخصوص پانی، نکاسی آب اور صفائی کی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ ایندھن کی عدم فراہمی اور اسرائیلی بمباری نے ہماری حیاتیاتی انفرا اسٹرکچر کو نشانہ بنایا ہے، جس کے نتیجے میں یہ بحران شدت اختیار کر رہا ہے‘‘۔
ترجمان کے مطابق، یہ تباہی شہر کے وسطی اور مغربی علاقوں میں پناہ گزین بننے والے لاکھوں افراد کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، جن کی زندگیاں اب سنجیدہ خطرات سے دوچار ہو چکی ہیں اور انسانی المیے کی شدت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ بنیادی ڈھانچے کی بربادی کے باعث پناہ گزینوں کے ان محدود علاقوں میں پانی کی طلب میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جہاں پانی پہنچانا ممکن نہیں رہا۔ ایسی صورتحال ہمیں مکمل آبی تباہی کے دہانے پر لے جا رہی ہے۔
حسنی مہنا نے شدید خدشہ ظاہر کیا کہ ایندھن نہ ہونے کی صورت میں نکاسی آب کے تمام اسٹیشنز مکمل طور پر بند ہو سکتے ہیں۔ شدید گرمی اور پناہ گزینوں کے گنجان علاقوں میں جمع ہونے کی وجہ سے یہ بندش خطرناک ماحولیاتی اور صحت کے بحران کو جنم دے سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ نکاسی نظام بند ہو گیا تو گندے پانی کی نالیوں کا پانی رہائشی علاقوں اور نشیبی علاقوں میں بہہ سکتا ہے، جس سے بیماریاں اور وبائیں پھیلنے کا شدید خطرہ ہے۔
قابض اسرائیل کی 7 اکتوبر 2023ء سے جاری وحشیانہ جارحیت نے غزہ کے پانی کے شعبے کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اب تک 1 لاکھ 15 ہزار میٹر سے زائد پانی کی پائپ لائنز تباہ ہو چکی ہیں، 63 کنویں ناکارہ ہو چکے ہیں، 4 بڑے پانی کے ذخیرے ملبے میں بدل چکے ہیں اور شہر کے شمال مغرب میں واحد واٹر ڈیسالینیشن پلانٹ بھی بند ہو چکا ہے، جو روزانہ 10 ہزار مکعب میٹر پانی فراہم کرتا تھا۔
حسنی مہنا نے کہا کہ موجودہ بحران سے نکلنے اور شہریوں کو بچانے کے لیے فوری طور پر 1 کروڑ 60 لاکھ ڈالر درکار ہیں تاکہ پانی اور صفائی کے نظام کو دوبارہ فعال بنایا جا سکے اور اس انسانی المیے کو روکا جا سکے۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے 2 مارچ 2024 ءکو غزہ کی تمام گزرگاہیں بند کر کے خوراک، ادویات، امداد اور ایندھن کی رسد کو روک رکھا ہے۔ ساتھ ہی وہ غزہ کے عوام پر نسل کشی کی شدت بڑھا رہا ہے۔