مقبوضہ بیت المقدس ۔ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )قابض اسرائیل کے وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بن گویر نے ایک نئی جیل کے قیام کی منظوری دے دی ہے جو اپنی نوعیت کا پہلا حراستی کیمپ ہوگا۔ اس میں ان فلسطینی مزدوروں کو رکھا جائے گا جو بغیر اجازت ناموں کے مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر روزگار کی تلاش میں آتے ہیں۔ ان محنت کشوں کو اب پہلی بار “سکیورٹی قیدی” کے زمرے میں ڈالا جائے گا جبکہ اس سے قبل انہیں صرف “جرائم پیشہ” کہا جاتا تھا۔
عبرانی اخبار “یدیعوت احرونوت” کے مطابق جیل انتظامیہ کے کمشنر کوبی یعقوبی کی تجویز پر فوری طور پر نئی جیل کا مرکزی ڈھانچہ تیار کیا جا رہا ہے اور جلد ہی اس کا افتتاح متوقع ہے۔
اخبار کے مطابق اس منصوبے کا مقصد ان فلسطینیوں کے خلاف سخت اقدامات کرنا ہے جو قابض اسرائیل کے اندر روزگار کے لیے داخل ہوتے ہیں۔ قابض فوج اسے “دراندازی” قرار دیتی ہے اور اس بہانے فلسطینی محنت کشوں پر ظلم و جبر بڑھا رہی ہے۔ اس منصوبے پر تیزی سے عمل درآمد اس وقت شروع کیا گیا جب 8 ستمبر سنہ2025ء کو القدس میں دو فلسطینی نوجوانوں کی کارروائی کے نتیجے میں چھ صہیونی ہلاک ہوئے تھے۔
قابض اسرائیل کے اعداد و شمار کے مطابق سال کے آغاز سے اب تک 6 لاکھ 65 ہزار سے زائد گاڑیوں کی تلاشی لی گئی جس کے نتیجے میں 542 فلسطینی مزدور گرفتار کیے گئے۔ اس دوران 107 فلسطینیوں پر گولیاں برسائی گئیں اور انہیں “درانداز” قرار دے کر شہید کر دیا گیا جب وہ بارڈر یا دیوار حائل کو پار کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
جیل انتظامیہ نے وضاحت کی ہے کہ اس وقت تقریباً 2500 فلسطینی جن میں اکثریت مغربی کنارے سے تعلق رکھتی ہے “جرائم پیشہ” کے زمرے میں جیلوں میں قید ہیں۔ نئے فیصلے کے بعد ان کی تعداد میں بڑے اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ اب پہلی خلاف ورزی پر ہی سخت سزا دی جائے گی۔
قابض کنیست میں ہونے والی بحث کے دوران جیل انتظامیہ اور وزارت قومی سلامتی کے نمائندوں نے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت اکتوبر سنہ2026ء تک مزید 3500 قیدیوں کے لیے جگہ مہیا کی جائے گی اور ایک اور جیل وسطی علاقے “سوریک” میں قائم کرنے پر بھی غور ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مصر کی سرحد پر نگرانی سخت کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
قابض اسرائیلی افواج فلسطینی محنت کشوں کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہیں اور ان پر “بغیر اجازت نامے کے قیام” کا الزام لگا کر ان کی زندگی اجیرن کر دی گئی ہے۔ ان پالیسیوں نے روزگار کی تلاش کو ایک روزانہ کے عذاب میں بدل دیا ہے۔
بہت سے فلسطینی مزدوروں کے پاس اجازت نامے موجود ہیں پھر بھی ان کا سفر تذلیل اور مشکلات سے بھرا رہتا ہے۔ یاد رہے کہ قابض اسرائیل نے 7 اکتوبر سنہ2023ء کے بعد تقریباً ڈیڑھ لاکھ فلسطینی محنت کشوں کے ورک پرمٹ منجمد کر دیے تھے۔
مغربی کنارے میں پسماندہ معیشت اور روزگار کے مواقع کی شدید کمی کے باعث ہزاروں فلسطینی مزدور قابض اسرائیل کے اندر روزی تلاش کرنے پر مجبور ہیں جہاں اجرتیں ان کے علاقوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ لیکن وہاں ان کی زندگی روزانہ کی تعاقب، ذلت اور صہیونی جبر کا شکار ہے۔
ان مظالم کے باعث اکثر مزدور سخت حالات میں رات گزارتے ہیں۔ وہ زمین پر، گوداموں یا پناہ گاہوں میں یا درختوں کے سائے تلے سونے پر مجبور ہوتے ہیں تاکہ اگلے دن روزگار حاصل کر سکیں اور اپنے گھر والوں کے لیے روزی لا سکیں۔ یہ دوہرا منظر آج بھی زندہ ہے: مغربی کنارے اور غزہ میں غربت اور بے روزگاری اور قابض اسرائیل کے اندر ذلت، اذیت اور صہیونی درندگی۔