برسلز – (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) یورپی یونین کے وزرائے خارجہ آج منگل کے روز ایک اہم اجلاس میں قابض اسرائیل کے خلاف ممکنہ اقدامات پر غور کر رہے ہیں۔ یہ غور و فکر غزہ پر جاری صہیونی جنگ، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور فلسطینی عوام کی منظم نسل کشی کے تناظر میں ہو رہا ہے۔
اگرچہ سفارتی ذرائع کے مطابق فوری طور پر کسی اقدام کی منظوری متوقع نہیں، تاہم یہ پیش رفت اس جانب واضح اشارہ ہے کہ یورپی یونین کے اندر قابض اسرائیل کی مجرمانہ پالیسیوں کے خلاف بےچینی بڑھ رہی ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ، کایا کالاس نے دس تجاویز پر مشتمل ایک فہرست پیش کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ قابض اسرائیل نے یورپی یونین کے ساتھ کیے گئے شراکت داری کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، بالخصوص انسانی حقوق کے احترام سے متعلق شقوں کی۔ ان تجاویز میں تعاون کے معاہدے کی مکمل معطلی، تجارتی تعلقات پر پابندیاں، قابض اسرائیلی وزرا پر پابندیاں، اسلحہ کی برآمدات پر پابندی، اور اسرائیلی شہریوں کو ویزا کے بغیر یورپی یونین میں داخلے کی سہولت ختم کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔
غزہ میں انسانی المیے کے بڑھتے ہوئے مناظر کے باوجود یورپی ممالک ان اقدامات پر متفق نہیں ہو سکے۔ یورپی یونین کے اندر رائے کا واضح فرق موجود ہے کہ قابض اسرائیل کے ساتھ کس سطح پر تعلقات محدود کیے جائیں۔
کایا کالاس نے گزشتہ روز کہا کہ ان سے متبادل اقدامات کی فہرست تیار کرنے کا کہا گیا تھا، اب یہ رکن ممالک پر ہے کہ وہ ان میں سے کسی ایک پر عمل درآمد کریں یا نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان تجاویز کا مستقبل قابض اسرائیل کی طرف سے غزہ میں انسانی امداد کی رسائی بہتر بنانے کے وعدوں کی پاسداری پر منحصر ہے۔
کالاس نے اس ہفتے کے آغاز میں اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر کے ساتھ کچھ مفاہمتوں کا اعلان بھی کیا، جن میں مزید گزرگاہیں کھولنے اور غذائی اشیاء کی فراہمی کی اجازت شامل ہے۔
پیر کے روز برسلز میں یورپی یونین اور اس کے ہمسایہ ممالک کے اجلاس میں اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے واضح الفاظ میں کہا کہ “غزہ کی صورتحال اب بھی انتہائی تباہ کن ہے۔”
اسی اجلاس میں اسرائیلی وزیر خارجہ نے پُراعتماد انداز میں کہا کہ “میں یقین سے کہتا ہوں کہ یورپی یونین کے رکن ممالک ان اقدامات کو نہیں اپنائیں گے، کیونکہ اس کی کوئی وجہ ہی نہیں۔”
اگرچہ یورپی یونین فوری طور پر کوئی ٹھوس قدم اٹھانے سے قاصر دکھائی دیتی ہے، تاہم صرف اس سطح تک پہنچ جانا بھی ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔
یاد رہے کہ یورپی یونین نے اس شراکت داری کے معاہدے پر نظرثانی تب کی جب قابض اسرائیل نے مارچ میں جنگ بندی کے خاتمے کے بعد دوبارہ غزہ پر حملے شروع کیے۔ اس سے قبل یورپی یونین اندرونی طور پر دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی: ایک طرف وہ ممالک جو اسرائیل کے حامی ہیں اور دوسری طرف وہ جو فلسطینی عوام کے انسانی و قانونی حقوق کے زیادہ قریب سمجھے جاتے ہیں۔