تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
غزہ پر غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی جارحیت کو 143دن گزر چکے ہیں۔ شہادتوں کی تعداد بھی روز برو ز بڑھتے ہوئے تیس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ زخمیوں کی تعداد بھی ایک لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ درجنوں اسپتال بھی تباہ ہو چکے ہیں، تمام رہائشی عمارتیں تقریبا زمین بوس ہو چکی ہیں، بچو ں کے اسکول اور تعلیم کے تمام مراکز بھی اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے نتیجہ میں تباہ ہو چکے ہیں، امدادی سرگرمیوں میں کام کرنے والے اراکین بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، میڈیکل کے شعبہ میں کام کرنے والی خاتون امدادی ورکرز سمیت ڈاکٹرز بھی اسرائیل کی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔صحافیوں کو بھی اسرائیلی دہشت گردی میں جان کی بازی ہارنا پڑی ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ بائیس لاکھ آبادی کا یہ علاقہ کھنڈر بن چکا ہے۔لوگ بے یار ومدد گار ہیں۔ کھلے آسمان تلے لاکھوں بے گھر موجود ہیں۔ معصوم بچوں کے لئے دودھ اور بنیادی خوراک کی فراہمی بھی میسر نہیں ہے۔پینے کو پانی نہیں ہے۔ کھانے کو غذا نہیں ہے۔ حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اسرائیل کی بمباری کے ساتھ ساتھ اب فلسطینی بچے غزہ کے علاقوں میں بھوک سے دم توڑ رہے ہیں۔ یہ آج کی ماڈرن ورلڈ ہے اور اس مادڑن دنیا کے باسی ہم خود ہیں جو یہ سارا تماشا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں رائج عالمی برادری اور عالمی نظام ناکام ہو چکا ہے۔ انسانیت کی بقاء ظالم اور جابر قوتوں بالخصوص امریکہ اور اسرائیل جیسی دہشت گرد طاقتوں کے سامنے خطرے میں ہے۔ ظلم کی انتہاء اپنے عروج پر ہے۔ روزانہ شہادتوں میں اضافہ کی خبروں کے ساتھ تعداد میں اضافہ ہوتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ہم صرف بڑھتی ہوئی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے بیان کر رہے ہیں۔
غزہ کو مکمل تباہ وبرباد کر دیا گیا ہے۔ غزہ کی آبادی کو پہلے شمال غزہ سے جنوب غزہ نکالا گیا۔ جیسے ہی یہاں پہنچے تو اسرائیل نے اپنی وحشیانہ دہشت گردی کے ذریعہ یہاں بھی نہتے عوام کا قتل عام کیا، بمباری کی۔جب یہاں سے نکالے گئے تو رفح کے علاقہ میں جمع کر دیا گیا اور پھر جیسے ہی سب وہاں پہنچے ہیں تو آج ان کو وہاں بھی قتل کیا جا رہاہے۔ روزانہ کی بنیادوں پر ایک سو سے دو سو فلسطینی شہید ہو رہے ہیں۔ ہم صرف اور صرف بڑھتی ہوئی تعداد میں مزید شہداء کو جمع کر کے نئی تعدادبتانے کی حد تک کام کر رہے ہیں۔
ان تما م حالات میں مسلم دنیا کے ممالک میں ایک عجیب سی بے حسی موجود ہے۔عرب دنیا کے اکثر حکمران تو پہلے ہی امریکہ اور اسرائیل کی غلامی کا طوق اپنی گردن میں ڈال چکے ہیں۔ لہذا ان سے کوئی امید رکھنا تو بے کار ہے۔جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو عوام بھی فقط سوشل میڈیا تک محدود ہوتے جا رہے ہیں۔جبکہ یورپ اور مغربی دنیا کے عوام کو دیکھا جائے تو وہ ہر ہفتہ لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو کر مظاہرے کر رہے ہیں۔فلسطین کے مظلوم عوام کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں۔ اپنی حکومتوں کے خاموش کردارپر تنقید کر رہے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں مسلمان دنیا کے عوام کیا کر رہے ہیں؟ فقط سوشل میڈیا پر چند ایک لوگ بیٹھ کر کچھ پوسٹ کر رہے ہیں۔لیکن عملی طور پر نہ تو حکومتوں کی کوئی کارکردگی نظرا ٓتی ہے اور نہ ہی عوام کی۔ ہم سب بے حس ہو چکے ہیں۔ شاید ہمیں کوئی بیدار کرے۔ یا شاید ہم فلسطین کے بعد اب کسی اور ملک کی باری لگنے کا انتظار کر رہے ہیں جس کے بعد پھر ہمارا سویا ہوا ضمیر جاگ اٹھے گا اور پھر ہم چند ایک مظاہرے اور ریلیاں کر یں گے۔
ہم بے حس ہو چکے ہیں۔اپنی بے حسی کو ختم کرنے کے لئے کیا کریں؟ ایسا کیا کام کریں کہ ہمارا شمار بھی دنیا کے با ضمیر اور بیدار لوگوں کے ساتھ کیا جائے۔ مسلم دنیا کے اکثر حکمران صرف بے حس ہی نہیں ہیں بلکہ نابینا اور گونگے بہرے بھی ہو چکے ہیں۔ حس بھی مر چکی ہے۔لیکن عوام کو تو بیدار ہونا چاہئیے۔عوام آج بھی فلسطینیوں کے لئے اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہیں لیکن کیا کوئی حکمران فلسطین کی خاطر جان نہ بھی دے تو کیا ان کی حمایت کرنے کے لئے تیار ہے؟آج یہ سوال ہمارے معاشرے میں بیداری کو جنم دے رہے ہیں۔عنقریب حکمرانوں کو اس بات کا جواب دینا ہو گا۔ عوام خاموش نہیں بیٹھیں گے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم معاشرے سے جمود اور بے حسی کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔اپنی اپنی استطاعت اور طاقت کے مطابق فلسطین کے مسئلہ کو اجاگر کریں۔ فلسطینیوں کی مظلومیت کو بیان کریں۔فلسطین کی مزاحمت کو بیان کریں۔امریکہ اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی ناکامیوں کو آشکار کریں۔ فلسطینیوں کے حق کے لئے ہر عالمی فورم پر بھرپور آواز اٹھائیں۔ خاموش نہ رہیں بے حس نہ ہوں۔
آئیں ہم سب مل کر غزہ کے درد کو اپنی اپنی زندگیوں میں شامل کریں۔غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے درد کو اپنا درد سمجھیں۔ اس درد کو اپنے اندر محسوس کریں۔اس تکلیف اور کرب کی کیفیت کو اپنے آپ کے لئے محسوس کریں۔ ایسا محسوس کریں کہ غزہ میں مارے جانے والے معصوم بچے ہمارے بچے ہیں۔اگر ہم واقعی بے حس ہو چکے ہیں تو پھر ہمیں اپنے آپ کے بارے میں بھی سوچنا چاہئیے کہ کیا ان تمام مظالم کو دیکھ کر اگر ہماری بے حسی برقرار ہے تو پھر کیا واقعی ہم انسان بھی ہیں؟بس اسی سوال کے جواب ہی میں ساری داستان پنہاں ہیں۔