غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) ایک امریکی رپورٹ میں غزہ سے واپس آنے والے ہزاروں اسرائیلی فوجیوں کی نفسیاتی اور دماغی صحت کی خرابیوں اور بعد از صدمے سے متعلق تناؤ جیسے مسائل کا انکشاف کیا ہے۔ اس تناؤ کے باعث کئی فوجیوں کی جانب سے کشی کی کوشش کا انکشاف کیا گیا ہے۔
امریکی سی این این نیٹ ورک کی طرف سے شائع ہونے والی اس رپورٹ میں سات اکتوبر 2023ء کو غزہ کی پٹی پر تباہ کن جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ میں جنگی صفوں سے واپسی کے اگلے دن خودکشی کرنے والے اسرائیلی فوجیوں کی تعداد کی وضاحت نہیں کی گئی، لیکن یہ اس نے اشارہ کیا کہ ان میں سے ہزاروں شدید نفسیاتی عوارض یا بیماریوں میں مبتلا ہیں جو کہ جنگ کے دوران ان کو پہنچنے والے صدموں کا واضح ثبوت ہیں۔
نیوز نیٹ ورک نے فوجیوں کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے “خوفناکیوں کا مشاہدہ کیا جسے بیرونی دنیا پوری طرح سے نہیں سمجھ سکتی”۔ رپورٹ جنگ کی جارحیت کی نادر جھلکیاں فراہم کرتی ہے، جس پر قابض وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ اپنی لوگوں کو ختم کرکے جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں۔
غزہ کے خلاف قابض اسرائیلی فوج کی طرف سے شروع کی گئی تباہی کی جنگ قابض ریاست کی طرف سے اپنے قیام کے بعد سے چھیڑی جانے والی سب سے طویل جنگ ہے۔ یہ جنگ اب لبنان تک پھیل رہی ہے۔ کچھ فوجیوں کا کہنا ہے کہ انہیں کسی اور جنگ میں جانے کا خدشہ ہے۔
قابض فوج کے ایک ڈاکٹرجس نے غزہ میں چار ماہ تک غزہ میں فوج کی مدد کی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سی این این کو بتایا کہ “ہم میں سے بہت سے لوگ لبنان میں جنگ میں حصہ لینے کے لیے دوبارہ بھرتی ہونے سے بہت ڈرتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اس وقت حکومت پر بھروسہ نہیں کرتے”۔
ریزرو فوجی ایلران میزراحی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اس نے چھ ماہ تک غزہ کے اندر لڑائی میں حصہ لیا۔ جب وہ گھر واپس آیا تو بہت مختلف تھا کیونکہ وہ پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر میں مبتلا تھا۔ اسے جب دوبارہ محاذ پر بھیجنے کا حکم ملا تو اس نے خود کشی کرلی۔
اس کی والدہ نے امریکی نیٹ ورک کو بتایا کہ “اس نے غزہ چھوڑ دیا، لیکن غزہ نے اسے نہیں چھوڑا۔ بعد میں اس صدمے کی وجہ سے اس کی موت واقع ہو گئی”۔
دریں اثناء ریزرو سپاہی جے زیکن جو میزراحی کے دوست اور بلڈوزر چلانے میں اس کا معاون ہے نے قابض فوج کی جانب سے غزہ میں ناقابل بیان مظالم کے بارے میں بات کی۔ اس نے کہا کہ وہ اب گوشت نہیں کھا سکتے، کیونکہ اس سے وہ خوفناک مناظر کی یاد دلاتا ہے۔اس نے جو مناظر غزہ میں دیکھے ہیں وہ اسے رات کوسونے نہیں دیتے۔
زیکن نے عوامی طور پر غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کو پہنچنے والے نفسیاتی صدمے کے بارے میں بات کی جو اس نے گذشتہ جون میں اسرائیلی کنیسٹ کے سامنے دی تھی۔ اس نے اعتراف کیا کہ فوجیوں نے کئی مواقع پر غزہ کے شہریوں پر ان کی لاشوں اور زندوں کو روند کر بھاگنے کی کوشش کی اور اپنی جان بچائی “۔
قابض فوج کے ایک ڈاکٹر نے امریکی نیٹ ورک کو بتایا کہ فوجیوں کو غزہ میں شہریوں سے ملنے پر اخلاقی مخمصے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ فوجیوں کے درمیان یہ تصور پایا جاتا ہے کہ غزہ کے لوگ ُبرے ہیں، وہ حماس کی حمایت کرتے ہیں، وہ حماس کی مدد کرتے ہیں۔ وہ گولہ بارود چھپاتے ہیں،لیکن میدان میں ان کا رویہ بہت مختلف ہے”۔