جنیوا (مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن) فلسطین میں اقوام متحدہ کے خواتین کے دفتر کی خصوصی نمائندہ ماریس گائیمنڈ نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر 9 ماہ سے جاری اسرائیلی جنگ نے “آبادی کو خوراک، رہائش، صحت اور ذریعہ معاش سے مکمل طور پر محروم کر دیا ہے”۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی کے دورے کے دوران کچھ علاقوں میں انہیں جانے کا موقع ملا۔ انہوں نے وہاں جو ظلم دیکھا اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
گائیمنڈ نے مزید کہاکہ “اس نے غزہ میں جو کچھ دیکھا وہ بیان سے باہر ہے، جس لمحے آپ کارم ابو سالم کراسنگ سے داخل ہوتے ہیں۔ آپ کے پیچھے باڑ بند ہوتی ہے،آپ کو خود کو تباہی کی دنیا میں پھنسا ہوا محسوس ہوتا ہے۔”
اس نے جاری رکھا: “گھروں، ہسپتالوں، سکولوں، یونیورسٹیوں اور نگہداشت کے مراکز کو مسمار کر دیا گیا۔ جب آپ وسطی علاقے کی طرف بڑھتے ہیں تو آپ کو عارضی خیموں میں لوگوں، مردوں، عورتوں اور بچوں کا ہجوم نظر آتا ہے۔”
انہوں نے نشاندہی کی کہ “غزہ میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ مسلسل نقل مکانی کی حالت میں ہیں اور غزہ میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔ ان میں سے کئی کئی بار بے گھر ہو چکے ہیں۔”
ان کا کہنا تھا “لوگ کسی بھی دستیاب کھلی جگہ پر منتقل ہو رہے ہیں۔ سڑکیں، کھیتی باڑی کی جگہیں اور تباہ شدہ عمارتیں۔ چھوٹے علاقوں میں نقل مکانی کر رہے ہیں جو ان کی مدد کے لیے موزوں نہیں ہیں”۔
اقوام متحدہ کی اہلکار نے تصدیق کی کہ “ہر نقل مکانی زیادہ نقصان اور خوف لاتی ہے”۔
خیال رہے کہ گذشتہ 7 اکتوبر سے “اسرائیلی” قابض افواج غزہ کی پٹی پر تباہ کن جنگ کیے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں دسیوں ہزار معصوم شہری شہید، زخمی اور لاپتہ ہونے کے علاوہ 20 لاکھ افراد بے گھرہوچکے ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کا 70 فیصد سے زیادہ تباہ ہوچکا ہے اور غزہ کی سخت ناکہ بندی اور مسلسل جنگ کے نتیجے میں گنجان آباد علاقہ قحط کی لپیٹ میں ہے۔
ادویات، پانی اور خوراک کی قلت کے باعث آئے روز بچوں اور دیگرشہریوں کی اموات کی خبریں آ رہی ہیں۔ دوسری جانب غاصب صہیونی دشمن ریاست نے جنگ بندی کی تمام کوششیں ناکام بنا دی ہیں اور وہ غزہ میں فلسطینیوں کی منظم اور مسلسل نسل کشی پر پوری ڈھٹائی کے ساتھ قائم ہے۔