نیویارک (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اقوامِ متحدہ کے ادارۂ برائے اطفال “یونیسف” کے ترجمان کاظم ابو خلف نے درد سے لبریز الفاظ میں دنیا کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کی تباہ حال بستیوں میں طبی عملہ بدترین دباؤ میں کام کر رہا ہے۔ یہاں دوا نہیں، طبی سازوسامان ختم ہو چکا ہے، ہسپتالوں میں بجلی کا نام و نشان نہیں اور آلات کو چلانے کے لیے ایندھن دستیاب نہیں۔ ان حالات میں غزہ کے معصوم مریض صرف موت کا انتظار کر سکتے ہیں۔
ابو خلف کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ غزہ سے کوئی ناممکن مطالبہ نہیں کر رہی، ہم صرف بین الاقوامی قانون کے اطلاق کا مطالبہ کر رہے ہیں ،وہ قانون جو ہر شہری کو علاج، زندگی اور آزادانہ نقل و حرکت کا بنیادی حق دیتا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر غزہ کو اسی حال پر چھوڑ دیا گیا تو ہم ایک ایسی الم ناک انسانی تباہی کا سامنا کریں گے، جس کے زخم نسلوں تک نہیں بھریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ روزانہ درجنوں معصوم بچے، مجبور خواتین اور لاچار بزرگ صرف اس لیے زندگی کی جنگ ہار جاتے ہیں کیونکہ انہیں وہ بنیادی طبی سہولیات بھی میسر نہیں جو کسی بھی انسان کا فطری حق ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ مسئلہ صرف امداد سے حل نہیں ہو سکتا۔ غزہ کی بحالی کے لیے ایک جامع منصوبے کی ضرورت ہے ۔ ایک ایسا منصوبہ جو معیشت کو دوبارہ زندہ کرے، سرحدیں کھولے اور ادویات، ایندھن اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی آزادانہ فراہمی کو یقینی بنائے۔
ابو خلف نے کہا کہ قابض اسرائیل کے مسلسل بمباری اور بدترین محاصرے کے نتیجے میں غزہ کا صحت کا نظام تقریباً مفلوج ہو چکا ہے۔ جنگ سے پہلے یہاں 36 ہسپتال کام کر رہے تھے، مگر اب صرف 18 ہسپتال کسی نہ کسی حد تک کام کر رہے ہیں اور ان میں سے بھی بیشتر صرف آدھی یا اس سے بھی کم استعداد پر چل رہے ہیں۔
انہوں نے انتہائی دل گرفتہ انداز میں بتایا کہ اس وقت 10 ہزار سے زائد شدید زخمی فلسطینی ایسے ہیں جنہیں فوری طور پر غزہ سے باہر لے جا کر علاج کی ضرورت ہے، مگر روزانہ صرف دو مریضوں کو ہی یہ اجازت ملتی ہے۔ اس رفتار سے تمام زخمیوں کو باہر لے جانے میں 13 سال سے زیادہ کا وقت درکار ہوگا ۔ اتنی دیر تک شاید ان میں سے بیشتر زندہ ہی نہ رہیں۔