Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

غزہ جنگ بندی اسلامی مزاحمت کی فتح ہے

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
سولہ جنوری کو تقریبا پندرہ ماہ کے بعد یہ خبر سامنے آئی ہے کہ غزہ جنگ میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے فلسطینی مزاحمت کے ساتھ ہونے والے بالواسطہ مذاکرات میں رضا مندی کا اظہار کیا ہے۔ یعنی جنگ بندی کا معاہدہ ترتیب پا چکا ہے اور اب دونوں فریق اس معاہدے کے مسودے پر رضا مند بھی ہیں۔ البتہ ا س معاہدے کی تفصیلات ابھی آنا باقی ہیں لیکن جو ابتدائی معلومات ہیں ان کے مطابق یہ معاہدہ تین مرحلوں میں انجام پذیر ہو گاجس کا پہلا مرحلہ اتوار انیس جنوری کو شروع ہو کر آئندہ بیالیس دن تک جاری رہے گا۔ان بیالیس دنوں میں قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا جبکہ غزہ میں مکمل جنگ بندی یعنی دونوں اطراف سے کسی قسم کی کوئی عسکری کاروائی انجام نہیں دی جائے گی۔ ساتھ ساتھ غزہ کے علاقوں سے مرحلہ وار اسرائیلی غاصب فوج بھی باہر نکل جائے گی۔
بہر حال یہ معاہدہ انجام پذیر ہو چکا ہے اور اس معاہدے کے عنوان سے پاکستان سمیت کچھ اور ممالک میں سیاسی تجزیہ نگار کہ جن کا جھکائو ہمیشہ امریکی سیاست یا امریکہ کی جانب رہاہے وہ سب اس بات پر بغلیں بجانے میں مصروف عمل ہیں کہ امریکی نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو کروانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور امریکی سیاست سے مرعوب ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اس معاہدے کا اصل چیمپئن امریکی حکومت یعنی موجودہ صدر بائیڈن اور آنے والا صدر ٹرمپ ہے۔یہ تجزیہ بالکل حقائق کے منافی ہے۔
حقیقیت یہ ہے کہ غزہ کی جنگ جو کہ سات اکتوبر 2023میں شروع ہوئی تھی پندرہ ماہ مکمل ہونے کے بعد بھی غاصب صیہونی حکومت اسرائیل سمیت امریکہ اور ان تمام مغربی حکومتوں کے لئے ایک چیلنج بن چکی ہے کہ جو غزہ پر اسرائیل کے مکمل قبضہ کی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ حماس کو غزہ سے مکمل ختم کرنے کی بات کر رہے تھے۔ پندرہ ماہ گزرنے کے بعد گذشتہ دو ماہ میں غزہ میں بڑھتی ہوئے مزاحمت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسماعیل ھانیہ اور یحیٰ سنوار جیسے قائدین کی شہادت کے بعد بھی حماس غزہ میں بھرپور مزاحمت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ حماس کے پاس 94اسرائیلی قیدی بھی موجود ہیں جن کو پندرہ ماہ گزرنے کے باوجود امریکہ اور اسرائیل کی تمام تر طاقت اور ٹیکنالوجی تلاش کرنے اور بازیاب کرنےمیں ناکام رہی ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ غزہ کی حمایت میں آٹھ اکتوبر سنہ 2023میں جنوبی لبنان کی سرحدوں پر کھلنے والا محاذ آج سے پچاس دن قبل اس لئے جنگ بندی کی طرف چلا گیا کیونکہ یہاں بھی اسرائیل مسلسل شکست پذیر ہوا اور نہ ہی حزب اللہ کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی اور نہ ہی ان لاکھوں صیہونی آبادکاروں کو شمال فلسطین میں واپس لانے کی کامیابی حاصل ہوئی جن کو حزب اللہ نے اپنی کاروائیوں کے ذریعہ شمال فلسطین سے نکال باہر کیا تھا۔ یہ صیہونی آباد کار تاحال اپنے گھروں کو واپس نہیں آ پائے ہیں کیونکہ حزب اللہ کے شہیدرہنما سید حسن نصر اللہ نے کہا تھا کہ اگر غزہ کے لوگ گھر سے بے گھر ہوں گے تو صیہونی آباد کاروں کو بھی گھروں میں نہیں رہنے دیا جائے گا۔جنوبی لبنان کے محاذ پر شکست ایک اور بڑی وجہ ہے جس نے امریکہ اور اسرائیل کو مجبور کیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کریں اور حماس کی شرائط کو تسلیم کریں۔
ایک اور حقیقت جس کو امریکی سیاست سے مرعقب تجزیہ نگاروںنے نظر انداز کیا ہے وہ یمن ہے۔ یمن نے سات اکتوبر کے بعد سے اعلان کیا تھا کہ غزہ کی حمایت کے لئے بحیرہ احمر کے راستوں کو امریکہ اور اسرائیل سمیت برطانوی اور ہر اس ملک کے بحری جہازوں کے لئے بند کر دیا جائے گاجو غزہ جارحیت میں اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں۔ یمن نےپندرہ ماہ سے بحیرہ احمر کے راستوں کو بلاک کر رکھا ہے۔ یہی نہیں بلکہ امریکی اور برطانوی جنگی جہازوں اور بحری بیڑوں کے ساتھ بھی نبر آزما ہے۔ اسی طرح یمن مسلسل غزہ کی حمایت میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے اہم مراکز تل ابیب، ایلات اور دیگر مقامات پر اپنے جدید ترین میزائلوں اور ڈرون کی مدد سے کامیابی سے نشانہ بنا رہاہے۔ حال ہی میں تل ابیب میں موجود وزارت جنگ کی ایک اہم عمارت کو یمن کے ہائپر سانک میزائلوں نے نشانہ بنایا ہے۔ اسی طرح امریکہ کے جدید ےترین ایم کیو نائن ڈرون بھی درجن بھر سے زیادہ مار گرائے ہیں، ایک جنگی جہاز ایف اٹھارہ بھی مار گرایا تھا۔ یمن کی بے مثال مزاحمت نے امریکہ اور برطانیہ سمیت اسرائیل کو مجبور کیا ہے کہ وہ غزہ کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کریں۔
ایک حقیقت عراق کی مزاحمت ہے کہ جس نےمسلسل غاصب صیہونی حکومت کے اہم مقامات کو اپنے میزائلوں اور ڈرون کے ساتھ نشانہ بنایا۔ ایران کا اہم کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جس نے دو مرتبہ وعدہ صادق نامی آپریشن لانچ کئے اور براہ راست غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے اہم فوجی اور جنگی مراکز کو کامیابی سے نشانہ بنایا تھا۔ان تمام واقعات نے جنگ کی صورتحال کو غزہ کے حق میں اور حماس کے حق میں بدلنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔اس بات کا اظہار خود حماس کی قیادت نے جنگ بندی کے معاہدے کے بعد کیا ہے ۔حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے ایران، عراق، لبنان، یمن کی مزاحمت کا زبردست انداز میں شکریہ ادا کیا ہے اور کہا ہے کہ یہی وہ مزاحمت ہے جس نے حماس کی مزاحمت کو مضبوط کیا اور غاصب صیہونی حکومت کو جنگ بندی کے معاہدے پر مجبور ہونا پڑا۔
ایک اور حقیقت جسے امریکی سیاست سے مرعوب تجزیہ نگار فراموش کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ خود غزہ میں گذشتہ چند ما ہ میں ہونے والی بے مثال مزاحمتی کاروائیاں ہیں جن کے بارے میں خود اسرائیلی ذرائع ابلاغ اعتراف کرتے رہے ہیںکہ اسرائیلی فوج ان مزاحمتی کاروائیوں کا مقابلہ نہیں کر پا رہی ہے۔ چند ہفتوں میں اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتوں نے جنگ کے رخ کو بدلنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ حماس کی اس قوت اور مضبوطی کا ذکر خود امریکی سیکرٹری خارجہ انٹونی بلنکن کو بھی کرنا پڑا۔
بہر حال خلاصہ یہ ہے کہ اگر کچھ تجزیہ نگاروں کی بات کو مان لیا جائے کہ امریکی حکومت بہت طاقتور ہے، اسرائیل کے پاس بے پناہ طاقت اور ٹیکنالوجی ہے اور نہ جانے بہت کچھ تو پھر سوال تو بہت سے اٹھتے ہیں لیکن ایک سوال یہ ہے کہ اگر کوئی طاقتور ہو اور دنیا کی تمام تر ٹیکنالوجی اور قوت سے لیس ہو تو پھر وہ جنگ بندی کا معاہد ہ کیوں کرے گا ؟ آخر اس دنیا کی طاقت کو لبنان اور غزہ میں جنگ بندی کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اس سوال کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے یعنی مزاحمت ہے جس نے ان تمام طاقتوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ جنگ بندی کا معاہدہ کریں ورنہ اگر ان کی قدرت ہوتی تو وہ جنگ بندی نہیں بلکہ فتح کا اعلان کرتے ۔لہذا اب چونکہ جنگ بندی ہوئی ہے تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ غزہ او ر مزاحمت کی کامیابی ہے کہ جس نے دنیا کی پوری طاقت کو اپنے سامنے جھکا دیا اور معاہدے پر مجبور کر دیا، یہ سب کچھ نہ تو بائیڈن کی سیاسی حکمت عملی ہے اور نہ ہی جوکر نما نئے امریکی صدر ٹرمپ کا کمال ہے ، اگر کسی کا کمال ہے تو صرف اور صرف اسلامی مزاحمت ہے جس کا مرکز و محور فلسطین اور اس کے ساتھی و مدد گار ایران، حشد الشعبی عراق، حزب اللہ لبنان، انصار اللہ یمن ہیں۔لہذا غزہ جنگ بندی اسلامی مزاحمت کی فتح ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan