غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے انسانی امور کے سربراہ برائے فلسطین جوناتھن ویٹال نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کا محصور اور زخمی علاقہ اب “سست روی سے ہونے والے قتلِ عام” کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، جہاں فلسطینی صرف کھانے کی تلاش میں روز مارے لوگ اپنی جانیں دےرہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی انسانی قانون کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے روزانہ درجنوں بے گناہ شہری موت کے گھاٹ اتارے جا رہے ہیں۔
غزہ سے ایک پریس کانفرنس کے دوران ویٹال نے کہا کہ “جب دنیا کی نظریں دوسری سمتوں میں الجھی ہوئی ہیں غزہ میں لوگ صرف زندہ رہنے کی کوشش میں قتل ہو رہے ہیں۔ یہاں صرف روٹی کی تلاش ایک موت کا پروانہ بن چکی ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ ایک ماہ سے جزوی طور پر کھولا گیا محاصرہ بھی کوئی ریلیف نہ لا سکا۔ اس دوران 400 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جو محض امدادی خوراک تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ویٹال نے بتایا کہ انہوں نے غزہ کے ناصر ہسپتال میں شدید زخمیوں سے ملاقات کی، جہاں نہ بستر دستیاب ہیں، نہ دوائیں اور نہ ہی طبی عملہ۔
ان کا کہنا تھا کہ قابض اسرائیلی فوج نے امریکی اور اسرائیلی امداد کی تقسیم کے مقامات پر جمع ہونے والے بھوکے عوام پر اندھا دھند گولیاں برسائیں، حالانکہ یہ مقامات اکثر عسکری زون قرار دے دیے گئے تھے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان میں سے کئی زخمی ایسی جگہوں پر گرے جہاں ایمبولینسز نہیں پہنچ سکیں، اور متعدد افراد اب تک لاپتہ ہیں جن کے زندہ ہونے کی امید بہت کم ہے۔
چند روز قبل بھی قابض اسرائیلی فوج کی ایک ٹینک نے ان فلسطینیوں پر گولیاں برسائیں جو امدادی ٹرکوں کے انتظار میں تھے۔ اس وحشیانہ فائرنگ میں کم از کم 60 افراد شہید اور سینکڑوں شدید زخمی ہوئے۔
ویٹال کے مطابق کچھ افراد ایسی مسلح گروہوں کے ہاتھوں بھی زخمی ہوئے جو قابض اسرائیلی فوج کے آس پاس سرگرم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صہیونی فوجیوں نے بارہا ان لوگوں کو نشانہ بنایا جو امدادی سامان لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
صحت اور پانی کا بحران، زندگیاں بربادی کے دہانے پر
جوناتھن ویٹال نے کہا کہ غزہ کا صحت کا نظام مکمل طور پر زمین بوس ہو چکا ہے۔ جو چند ہسپتال جزوی طور پر کام کر رہے ہیں وہ بھی حد سے زیادہ دباؤ، براہ راست بمباری اور جبری انخلاء کے احکامات کی زد میں ہیں۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ ایندھن کی شدید قلت کے باعث ہسپتالوں کا کام رُک چکا ہے، اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو روزانہ ایسی اموات ہوں گی جن سے بچا جا سکتا تھا۔
پانی کے بحران پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر کنویں ایندھن ختم ہونے یا خطرناک علاقوں میں ہونے کے باعث بند ہو چکے ہیں۔ پانی کی پائپ لائنیں تباہ ہو چکی ہیں، جس سے باقی ماندہ پانی بھی ضائع ہو رہا ہے۔ بچے گھنٹوں لمبی قطاروں میں کھڑے ہو کر پانی کے ٹرکوں کا انتظار کرتے ہیں، جو اکثر پہنچتے ہی نہیں۔
بڑھتی بھوک اور قحط کا خطرہ
ویٹال نے کہا کہ غزہ میں قحط کے خطرناک آثار واضح ہو چکے ہیں۔ یونیسف کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے آغاز سے روزانہ 110 سے زائد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہو کر ہسپتالوں میں پہنچائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ تھوڑی بہت جو خوراک پہنچتی ہے وہ یا تو بھوکی بھیڑ میں لوٹ لی جاتی ہے یا مسلح گروہ چھین لیتے ہیں۔
بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے
اقوامِ متحدہ کے اہلکار نے کہا: “یہ سب کچھ اتفاقیہ نہیں، بلکہ فلسطینیوں کی زندگی کو غزہ سے مٹانے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ بھوک کو ایک ہتھیار بنایا گیا ہے۔ یہاں ہر دن ایک منظم نسل کشی کی نئی قسط ہے۔”
ویٹال نے واضح کیا کہ قابض اسرائیل، جو غزہ پر قبضے کی طاقت رکھتا ہے، بین الاقوامی قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں مکمل ناکام ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ان جرائم پر عالمی سطح پر سخت جوابدہی ضروری ہے۔
عالمی دباؤ اور فوری جنگ بندی کی اپیل
اپنی گفتگو کے اختتام پر ویٹال نے دنیا بھر کے ممالک سے اپیل کی کہ وہ قابض اسرائیل پر سیاسی اور معاشی دباؤ ڈالیں تاکہ اس خونی تباہی کو روکا جا سکے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ عالمی عدالت انصاف کی سفارشات کی روشنی میں فوری اور مستقل جنگ بندی کی جائے۔
ویٹال نے دنیا کو ایک اور جھنجھوڑ دینے والا پیغام دیا: “آج، میں غزہ کے دل سے کہتا ہوں کہ جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ ناکافی ہے۔ فلسطینیوں کی زندگی اور اس کے تمام سہارے ایک منظم طریقے سے مٹا دیے جا رہے ہیں، اور دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے۔”
قابض اسرائیلی افواج نے امریکہ کی کھلی پشت پناہی کے سائے میں 7 اکتوبر سنہ2023ء سے اب تک غزہ میں جو نسل کشی کی ہے، اس میں 1 لاکھ 87 ہزار سے زائد فلسطینی شہید و زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں، جبکہ 11 ہزار سے زائد افراد لاپتہ اور لاکھوں در بدر ہیں۔