غزہ(مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن)غزہ کی پٹی غاصب قابض اسرائیل کی درندگی نے مظلوم فلسطینیوں کو ایک بار پھر نشانہ بنایا، جو صرف ایک زندگی بچانے کے یے نوالہ تلاش کرنے کے لیے قطاروں میں کھڑے تھے۔ اتوار کے روز کیے گئے بہیمانہ فضائی اور زمینی حملوں میں سینکڑوں فلسطینی شہید اور زخمی ہو گئے۔
مقامی صحافتی اور طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ آج فجر سے جاری بمباری کے نتیجے میں کم از کم 65 فلسطینی شہید اور 315 شدید زخمی ہوئے۔ ان میں 17 مظلوم شہری وہ تھے جو جنوبی غزہ میں امدادی سامان کی تقسیم کے مقام پر زندگی کی امید لیے کھڑے تھے۔
قابض دشمن نے شمال مغربی غزہ کے علاقے التوام میں امداد کے منتظر فلسطینیوں پر براہِ راست حملہ کیا، جس کے نتیجے میں کم از کم 7 افراد موقع پر ہی شہید اور متعدد زخمی ہو گئے۔
مشکل ترین حالات، شدید محاصرے اور تباہ حال طبی نظام کے باوجود، امدادی ٹیموں نے زخمیوں کو مغربی خان یونس کے المواصی علاقے میں قائم فیلڈ ہسپتالوں اور ناصر میڈیکل کمپلیکس منتقل کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔
وزارتِ صحت غزہ کے مطابق، سنہ2025ء کے 27 مئی سے جاری امدادی تقسیم کے دوران شہداء کی تعداد بڑھ کر 300 ہو گئی ہے، جب کہ زخمیوں کی تعداد 2649 سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس مسلسل ظلم و ستم پر فلسطینی عوام کا ایک ہی سوال ہے: کیا ایک نوالے کی تلاش بھی جرم ہے؟
مظلوموں کے خلاف یہ ظلم صرف بموں سے نہیں ہو رہا بلکہ امدادی نظام کو بھی صہیونی دشمن نے ایک نیا ہتھیار بنا لیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، امریکی سرپرستی میں بنائی گئی نام نہاد “غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن” اس امدادی نظام کو چلا رہی ہے، جس کا مقصد لوگوں کی عزتِ نفس کو روندنا اور انہیں مخصوص دیواروں میں قید رکھنا ہے۔
یہ “انسانی بلبلے” درحقیقت صہیونی قید خانے ہیں، جہاں صرف وہی جا سکتے ہیں جو قابض دشمن کی منظور شدہ بایومیٹرک شناخت سے گزرے ہوں۔ ان علاقوں میں مخصوص نجی سکیورٹی ٹیمیں تعینات کی گئی ہیں، جو عوام کو مزید بے بس بنانے کے مشن پر ہیں۔
اس ادارے کے پیچھے امریکہ کی مکمل حمایت ہے، حالانکہ یہ فاؤنڈیشن صرف فروری میں جنیوا میں رجسٹر ہوئی ہے، اور اس کے سی ای او جیک ووڈ سابق امریکی میرینز کے نشانہ باز ہیں، جن کی صہیونی ریاست سے ہمدردی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
بین الاقوامی ادارے بھی اس انسان دشمن نظام پر مسلسل تنقید کر رہے ہیں، مگر عالمی ضمیر ایک بار پھر خاموش ہے۔ فلسطینیوں کے لیے امداد بھی اب ایک زہر بن چکی ہے، جو اُن کے جسم و جان کو چھید رہی ہے۔
غاصب اسرائیل کی امریکی حمایت یافتہ اس نسل کشی نے 7 اکتوبر سنہ2023ء سے اب تک 184 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید یا زخمی کر دیا ہے، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ 11 ہزار سے زائد فلسطینی اب بھی لاپتہ ہیں، جب کہ لاکھوں افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہو چکے ہیں۔