نیویارک (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی ’انروا‘ کے سربراہ فلیپ لازارینی نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں امریکہ اور قابض اسرائیل کی سرپرستی میں چلائی جانے والی نام نہاد امدادی ترسیل کی ’نئی اسکیم‘ بڑھتی ہوئی بھوک کا حل نہیں بلکہ انسانی ذلت اور موت کا راستہ ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر اپنے پیغام میں کہا کہ “یہ امدادی نظام انتہائی توہین آمیز، تکلیف دہ اور انسانی جانوں کے لیے خطرناک ہے اور ہم کسی صورت یہ نہیں چاہیں گے کہ بھوک کی ہولناک کھیلیں غزہ میں سچائی کا روپ دھار لیں”۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب قابض اسرائیلی ریاست نے سنہ2023ء کے سات اکتوبر سے جاری جنگ میں نہ صرف بے گناہ فلسطینیوں کو قتل کیا بلکہ ان کے کھانے پینے کے ذرائع بھی بند کر دیے۔ ہزاروں فلسطینی خصوصاً جنوبی غزہ کے رفح علاقے میں، جان بچانے کے لیے جب امداد لینے نکلتے ہیں تو قابض فوج گولیاں برسانے سے بھی نہیں ہچکچاتی۔
رپورٹس کے مطابق امریکہ کی نگرانی میں قائم ’غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن‘ کے تحت چلنے والے امدادی مراکز میں نہ صرف ظالمانہ طرزِ عمل روا رکھا جا رہا ہے، بلکہ ان مراکز کی حفاظت بھی قابض اسرائیلی فوج اور امریکہ سے درآمد کیے گئے کرائے کے جنگجو کر رہے ہیں۔ یہ عمل انسانی اقدار کی کھلی توہین ہے۔
لازارینی نے سخت لہجے میں کہا کہ “یہ قابلِ قبول نہیں کہ بھوک کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے فلسطینیوں کو جھکنے پر مجبور کیا جائے۔” انہوں نے مزید کہا کہ قابض اسرائیل ایک منظم منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو بھوکا مارنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، اور اس پر عالمی خاموشی انسانیت کے ماتھے پر ایک بدنما داغ ہے۔
ادھر “انروا” نے گذشتہ روز اپنی رپورٹ میں بتایا کہ صرف مئی کے آخری ہفتے تک، پانچ سال سے کم عمر کے 2700 سے زائد فلسطینی بچوں میں شدید غذائی قلت کی تشخیص ہو چکی ہے۔ ان بچوں کی زندگیاں ایک ایسی نسل کشی کا شکار ہو رہی ہیں جو دنیا کی نظروں کے سامنے انجام دی جا رہی ہے۔
رپورٹ میں غزہ سے موصول ہونے والے ایک پیغام کو بھی شامل کیا گیا جس میں لکھا تھا، “ہم مکمل بے بسی اور تھکن کی انتہا پر ہیں۔ بھوک نے انسانوں کی عزت اور وقار چھین لی ہے۔ لوگ بچوں کو سلا کر خود بھوکے رہنے پر مجبور ہو چکے ہیں”۔
ایک دل دہلا دینے والے واقعے میں کچھ نوجوان تین دیگیں کھانے کی لے کر ایک ایسی بستی پہنچے جہاں تک خیراتی ادارے نہیں پہنچ سکے تھے۔ لوگوں نے راستے بھر ان سے سوال کیا، “کیا تمھارے پاس کھانا ہے؟ کیا ہم تھوڑا سا لے سکتے ہیں؟” مگر انکار کرنا پڑا کیونکہ دیگیں پہلے ہی مخصوص خاندانوں کے لیے تھیں۔ اور جب وہ مقامِ منزل تک پہنچے تو حقیقت توقع سے بھی زیادہ دردناک تھی۔
قابض اسرائیلی فوج نے نہ صرف عمارات کو ملبے میں بدلا بلکہ ہسپتال، سکول، پانی کی لائنیں، کھیت، اور زندگی کے تمام سہارے مٹا دیے۔ لیکن اس سب سے بھی زیادہ ظالمانہ عمل یہ ہے کہ انسانوں کو بھوک سے مارا جا رہا ہے۔ یہ درندگی صرف غزہ پر نہیں بلکہ پوری انسانیت پر حملہ ہے۔