Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

“میڈیلین کشتی” قابض اسرائیل کے جبروتشدد کے باوجود اُمید و یکجہتی کا پیام

غزہ  (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) جب انسانیت کے تقاضے عالمی طاقتوں کے مفادات کے تابع ہو چکے ہوں، ایسے میں کشتی “میڈلین” نے ایک لمحے کو ہی سہی، محصور اہلِ غزہ کے حق میں اُمید کی ایک کرن جگا دی۔ یہ کشتی صرف ایک بحری جہاز نہیں تھی، بلکہ آزادی کا استعارہ تھی۔ یہ سمندر کو ایک بار پھر آزادی کی علامت بنانے نکلی، نہ کہ جدید دور کی ظالمانہ بحری قزاقی کی میں مدد کرنے نکلی۔

یہ کشتی، جس پر 12 کارکن سوار تھے میں سرِفہرست سویڈن کی نوجوان ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ اور یورپی پارلیمنٹ کی رکن ریما حسن شامل تھیں، غزہ کی جانب روانہ ہوئی۔ اگرچہ اس میں امداد کی مقدار علامتی تھی، لیکن اس کی معنوی قدر بےحد عظیم تھی۔ یہ پیغام دینا کہ محصور فلسطینی تنہا نہیں اور دنیا کا ضمیر اب بھی مکمل طور پر مردہ نہیں ہوا۔

“اگر آپ یہ ویڈیو دیکھ رہے ہیں تو ہمیں قابض اسرائیلی فوج یا اس سے ملی بھگت رکھنے والی افواج نے اغوا کر لیا ہے”یہ پیغام کشتی میڈلین پر سوار رضاکاروں کی طرف سے بھیجا گیا جنہیں قابض اسرائیل نے کھلے سمندر میں یرغمال بنا لیا تھا۔

قانون کے پردے میں کھلی بحری قزاقی

میڈلین سے براہ راست رابطہ کئی دن تک منقطع رہا۔ اطلاعات متضاد تھیں اور عملے کا انجام غیر واضح۔ یہاں تک کہ عبرانی ذرائع نے انکشاف کیا کہ قابض اسرائیلی افواج نے “نرمی” سے کشتی کو روک کر اسے قابض بندرگاہ اسدود منتقل کر دیا، جہاں سے کارکنوں کو رملہ کے حراستی مرکز بھیجا گیا۔

قابض اسرائیل جس “نرمی” پر فخر کر رہا ہے، وہ دراصل بین الاقوامی پانیوں میں کی گئی مکمل بحری قزاقی تھی، جسے دنیا بھر سے شدید مذمت کا سامنا کرنا پڑا۔

میڈلین… وہ عورت جس کے نام پر کشتی بنی

میڈلین غزہ کی وہ عظیم خاتون تھیں جو اپنی چھوٹی سے کشتی پر محنت کر کے اپنے خاندان کا پیٹ پالتی تھیں۔ قابض اسرائیلی فوج نے ان کی کشتی تباہ کر دی، مگر وہ نہ جھکیں، نہ رُکیں۔ اسی استقامت کی یاد میں اس کشتی کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا۔

قابض اسرائیل کو عالمی سطح پر شرمندگی کا سامنا

ترکیہ کی وزارت خارجہ نے واقعے کو “بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے رضاکاروں کو اغوا کیا اور یہ عمل ایک دہشتگرد ریاست کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔

اسپین نے بھی سخت احتجاج کیا اور اسرائیلی قائم مقام سفارتکار کو طلب کیا، کیونکہ ان کا شہری سرخیو توریبیو اس کشتی میں موجود تھا۔

میڈلین نے قابض اسرائیل کی جھوٹی کہانیوں کو بےنقاب کر دیا

تل ابیب میں قابض حکام نے ہمیشہ کی طرح مظلوم کو مجرم بنانے کی کوشش کی۔ قابض اسرائیل کے وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے 7 اکتوبر کے حملے کی فوٹیج رضاکاروں کو دکھانے کی دھمکی دی، جسے ماہرین نے سچ چھپانے کے لیے جھوٹ پر مبنی سیاسی پروپیگنڈہ قرار دیا۔

قابض حکومت کے ترجمان ڈیوڈ مینسر نے کشتی پر موجود امداد کو “معمولی” قرار دے کر معاملے کو گھٹانے کی کوشش کی، مگر وہ اس حقیقت کو نظرانداز کر بیٹھے کہ یہ جہاز ایک علامت بن چکا ہے ، ضمیر کی علامت، مزاحمت کی علامت۔

صقلیہ کی گود میں محبت، اسدود کی زنجیروں میں قید

یہ کشتی اٹلی کے جزیرہ صقلیہ سے روانہ ہوئی، جہاں اسے حکومتی و عوامی حمایت میں روانہ کیا گیا۔ صقلیہ میں کارکنوں کا استقبال ہوا، مگر قابض اسدود میں ان کے لیے سلاخیں تھیں۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ قابض اسرائیل انسانی ہمدردی سے کیسے خائف ہے۔

جنگی مجرم نیتن یاھو کی خون خوار حکومت اسے معمولی واقعہ دکھانا چاہتی تھی، مگر دنیا نے اس بیانیے کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے “منظم دہشتگردی” قرار دیا اور سوشل میڈیا پر ایسی تصویریں وائرل ہو گئیں جن میں قابض اسرائیل کو بحری قزاقوں کے روپ میں دکھایا گیا، جو امداد چراتے ہیں اور رضاکاروں کو سزا دیتے ہیں۔

فرانس نے بھی اپنی محتاط سفارتی زبان کے باوجود اس واقعے پر تشویش کا اظہار کیا، اور بائیں بازو کے اراکینِ اسمبلی نے فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ فرانس کا “فرانس انبوو” پارٹی نے اس عمل کو “بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی” قرار دیا۔

فلسطینیوں کی پکار: “تم اکیلے نہیں ہو”

غزہ میں اس مجرمانہ اقدام کو خاموشی سے قبول نہیں کیا گیا۔ اسلامی تحریک مزاحمت “حماس” اور اسلامی جہاد نے واقعے کی شدید مذمت کی۔ حماس نے اپنے بیان میں کہاکہ

“یہ ایک ریاستی دہشتگردی ہے، ان رضاکاروں پر حملہ جنہوں نے صرف انسانی ہمدردی کے جذبے سے کام لیا۔ اس عمل نے واضح کر دیا کہ غزہ تنہا نہیں، اور انسانیت کا ضمیر اب بھی قابض فسطائی حکومت کے خلاف زندہ ہے”۔

کاروان عزیمت : خشکی پر بھی مزاحمت جاری

اسی وقت ایک اور کارواں “قافلہ صمود” تیونس سے غزہ کے لیے زمینی راستے پر روانگی کی تیاری میں ہے۔ یہ کارواں لیبیا اور مصر کی سرزمینوں سے گزرتے ہوئے غزہ پہنچے گا، ساتھ لائے گا ہزاروں رضاکار اور امدادی سامان۔ مغرب، یورپ اور امریکہ سے آنے والے ان رضاکاروں کا ایک ہی پیغام ہے: اب محاصرہ ناقابل قبول ہے اور خاموشی خود ظلم میں شراکت داری ہے۔

شاید میڈلین کو سمندر میں قید کر دیا گیا ہو مگر اس کا پیغام ہر اس دل تک پہنچ چکا ہے جہاں انسانیت زندہ ہے۔ اس کشتی نے یہ ثابت کر دیا کہ محاصرہ صرف خوراک سے نہیں توڑا جاتا، بلکہ سچائی کے ذریعے اور اس جذبے کے ذریعے توڑا جاتا ہے جو صرف نعرہ نہیں، عمل میں جھلکتا ہے۔

میڈلین کشتی کا صبر آزما اور مشقت طلب سفر کرنے والوں نے ثابت کیا کہ جب تک سمندر آزاد ہے، جب تک ضمیر زندہ ہے، جب تک کوئی میڈلین زندہ ہےغزہ کبھی بھی تنہا نہیں رہے گا۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan