Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

غزہ میں قحط شدت اختیار کر گیا، عالمی ادارہ خوراک کا امدادی کام معطل

غزہ  (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن)  فلسطینی قوم پرمسلط کی گئی صہیونی نسل کشی، محاصرے اور وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں بھوک اور پیاس کی چکی میں پسنے والے محصور فلسطینیوں کے لیے ایک اور المناک خبر یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ خوراک نے غزہ میں اپنا امدادی عمل عارضی طور پر روک دیا ہے۔ اس فیصلے سے 23 لاکھ سے زائد غزہ کے محصور اور قحط زدہ عوام کو شدید صدمہ پہنچا ہے، جو روزانہ کی بنیاد پر موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔

ادارے نے 77 تجارتی ٹرک ڈرائیوروں کے معاہدے معطل کر دیے ہیں اور کہا ہے کہ جب تک فائر بندی کا کوئی باقاعدہ معاہدہ طے نہیں پاتا اور اقوام متحدہ و دیگر انسانی اداروں کی محفوظ سرگرمیوں کے لیے موزوں حالات پیدا نہیں کیے جاتے، امدادی کام بحال نہیں کیا جا سکتا۔ غزہ میں اس وقت ہر طرف تباہی، بے بسی اور درد کی ایک کہانی بکھری ہوئی ہے۔

ڈرائیوروں کے مطابق، عالمی ادارہ خوراک کا امدادی نظام اس وقت مفلوج ہو چکا ہے، کیونکہ خوراک کے گودام، ٹرک اور دیگر تنصیبات لوٹ مار، تخریب کاری اور بدامنی کا نشانہ بن چکی ہیں۔ چوروں کے منظم گروہوں نے نہ صرف ٹرکوں کے ٹائروں، انجنوں، بیٹریوں اور ایندھن کو لوٹ لیا، بلکہ کئی گاڑیوں کو تباہ بھی کر دیا۔ ان میں وہ جدید ٹرک بھی شامل ہیں جو جنگ بندی کے ابتدائی مرحلے میں، 19 جنوری سے 2 مارچ 2023ء کے دوران، امداد لے کر غزہ پہنچے تھے، مگر قابض اسرائیل نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک بار پھر غزہ کو خون میں نہلا دیا۔

گذشتہ دنوں کے دوران غزہ میں عالمی ادارہ خوراک کے گوداموں میں افراتفری، لوٹ مار اور سامان کی چوری کی کئی وارداتیں ہو چکی ہیں، جس کے نتیجے میں آٹے، غذائی اشیاء، برقی جنریٹرز اور گاڑیوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔

اسرائیلی بمباری نے غزہ کی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا کر غزہ کو لاقانونیت کی آماجگاہ بنا دیا ہے۔ پولیس اہلکاروں کی شہادت اور گشت نہ ہونے کی وجہ سے چوروں اور لٹیروں کو کھلی چھوٹ مل چکی ہے، اور امدادی قافلے مسلسل حملوں کی زد میں ہیں۔

2 مارچ کو قابض حکومت کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے ایک خونی حکم جاری کیا، جس کے تحت غزہ کے تمام زمینی راستے مکمل طور پر بند کر دیے گئے۔ اس سفاک فیصلے نے غزہ میں پہلے سے جاری انسانی بحران کو ناقابل برداشت حد تک بڑھا دیا۔

بین الاقوامی دباؤ کے بعد قابض اسرائیل نے حالیہ دنوں میں عالمی ادارہ خوراک کے لیے کچھ محدود امدادی اشیاء کی اجازت دی لیکن 80 دن کے محاصرے اور عسکری ناکہ بندی کے بعد جو تھوڑی سی امداد داخل ہوئی، وہ صحراء میں پانی کی ایک بوند سے زیادہ نہیں۔

لوگوں کو اس امداد سے کوئی ریلیف نہیں ملا۔ غربت، بھوک، تکلیف اور بے بسی پہلے سے کہیں بڑھ چکی ہے۔ فلاحی مراکز بند ہیں، روٹی کے تنور ٹھنڈے ہو چکے ہیں، بازار خالی ہیں اور جو خوراک باقی رہ گئی ہے، اس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔

اقوام متحدہ اور دیگر انسانی تنظیموں نے اسرائیلی اقدام کو غیر مؤثر اور ناکافی قرار دیا ہے۔ واضح کیا ہے کہ اگر روزانہ کم از کم 1000 ٹرک خوراک، ادویات اور دیگر اشیائے ضروریہ کے ساتھ غزہ نہ بھیجے گئے تو یہ بحران مکمل قحط میں بدل جائے گا۔ عالمی ادارہ خوراک نے بھی اپنے مشن کو “قحط کو روکنے کی ایک دوڑ” قرار دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے اداروں نے ایک مشترکہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کی طرف سے امدادی عمل کو قابو میں رکھنے کے طریقہ کار کو مسترد کر دیا ہے، کیونکہ یہ انسانی کارکنوں اور ڈرائیوروں کی زندگیوں کو شدید خطرے میں ڈال رہا ہے۔ ان اداروں نے تمام گذرگاہیں فوری طور پر کھولنے اور روزانہ بڑے پیمانے پر امداد داخل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

انروا نے واضح کیا ہے کہ اس کا عمان میں واقع مرکزی گودام 200,000 افراد کے لیے ایک ماہ کی خوراک، صفائی کا سامان، ادویات اور کمبل فوری طور پر فراہم کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے اور یہ گودام غزہ سے محض تین گھنٹے کی مسافت پر ہے۔

انروا نے زور دیا ہے کہ غزہ میں انسانی ضروریات بہت زیادہ ہیں اور فوری، مربوط، مسلسل اور غیر مشروط انسانی امداد کے بغیر جانیں بچانا ممکن نہیں۔ اس نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ خاموش تماشائی بننے کے بجائے عملی اقدامات کرے، کیونکہ غزہ اب قحط کی سرحد پر نہیں، بلکہ قحط کے اندر ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan