نیویارک (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اقوام متحدہ نے غزہ میں جاری صہیونی درندگی اور اجتماعی قتل عام کو ایک ایسا انسانی المیہ قرار دیا ہے جو جنگ کے آغاز کے بعد اپنی بدترین شکل اختیار کر چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفان ڈوجاریک نے جمعہ کی شب ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ قابض اسرائیل کی طرف سے 7 اکتوبر 2023ء سے مسلط کردہ نسل کش جنگ نے غزہ کو مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
ڈوجاریک نے کہا کہ اقوام متحدہ کے انسانی امور سے متعلق رابطہ دفتر برائے انسانی امور “اوچا” کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں انسانی تباہی اپنے بدترین مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ قابض اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ کے”العودہ” ہسپتال کو بھی خالی کرا لیا ہے، جب کہ پورے علاقے میں جبری نقل مکانی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ صرف پچھلے دو ہفتوں میں دو لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو زبردستی بے گھر کر دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ اور اس کے شراکت دار ادارے قابض اسرائیل کی کڑی پابندیوں اور سخت رکاوٹوں کے باوجود، فلسطینی شہریوں تک امداد پہنچانے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں، تاہم اسرائیلی رکاوٹوں کے باعث یہ امداد نہایت محدود ہو چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے اسی دنوں سے قابض اسرائیل کی جانب سے انسانی امداد خاص طور پر خوراک کو غزہ میں داخل ہونے سے روکے جانے کے بعد صورتحال بدترین حدوں کو چھو چکی ہے۔ لاکھوں فلسطینی شہریوں کو نہ صرف بنیادی خوراک اور دوا سے محروم رکھا جا رہا ہے بلکہ ان پر بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
ڈوجاریک کے مطابق محدود مقدار میں جو امداد غزہ میں داخل ہو رہی ہے، وہ بھی 21 لاکھ سے زائد ضرورت مند افراد کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انتہائی ناکافی ہے۔
غزہ کی سرکاری میڈیا کمیٹی نے بھی اس المناک صورتحال کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ قابض اسرائیل نے 2 مارچ سے تمام زمینی راستے بند کر کے 24 لاکھ فلسطینیوں پر جان بوجھ کر قحط مسلط کیا ہے، تاکہ ان کے جبری انخلا کی راہ ہموار کی جا سکے۔
قابض اسرائیل امریکہ کی غیر مشروط پشت پناہی سے، 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک غزہ میں بدترین جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے، جن میں اجتماعی قتل عام، نسل کشی، بمباری اور شہری آبادی کو نشانہ بنانا شامل ہے۔ اس بے رحم جنگ میں اب تک ایک لاکھ 77 ہزار سے زائد فلسطینی یا تو شہید ہو چکے ہیں یا شدید زخمی، جن میں اکثریت خواتین اور معصوم بچوں کی ہے۔ 14 ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں، جب کہ لاکھوں افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔