جنیوا (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور کے ترجمان ینس لائیرکے نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ قابض اسرائیل اور امریکہ کی پشت پناہی سے قائم کی گئی نام نہاد تنظیم “غزہ ریلیف” ایک دکھاوے سے زیادہ کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حقیقی ضرورت اس وقت صرف اور صرف غزہ کے تمام بند راستوں کو کھولنے کی ہے تاکہ محصور فلسطینیوں تک فوری امداد پہنچائی جا سکے۔
جنیوا میں منگل کے روز ایک پریس کانفرنس کے دوران لائیرکے کا کہنا تھا کہ “ہم اس طریقہ کار کا حصہ نہیں ہیں، کیونکہ یہ توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔ اس وقت جو واقعی ضروری ہے وہ ہے غزہ کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کا کھلنا اور قابض اسرائیل کی جانب سے ہنگامی امدادی اشیاء کی فراہمی کی منظوری میں اضافہ۔”
انہوں نے کہا کہ قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ میں داخل کی جانے والی امداد پر جو کڑی پابندیاں عائد کی گئی ہیں، وہ اس بات کا عملی ثبوت ہیں کہ وہاں بھیجی جانے والی اشیاء ضرورت کے مطابق نہیں ہوتیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جو تھوڑی بہت مدد پہنچائی جا رہی ہے، وہ بھی فلسطینیوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔
ادھر “انروا” کی جانب سے بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ ادارے کی رابطہ و اطلاعات کی ڈائریکٹر جولیٹ توما نے بتایا کہ ان کے پاس بڑی مقدار میں ادویات اور طبی امداد موجود ہے، مگر قابض اسرائیل کی رکاوٹوں کے باعث یہ سب کچھ غزہ کے اندر داخل نہیں ہو پا رہا۔
انہوں نے کہا کہ “ہمارے پاس تین ہزار سے زائد ٹرک تیار کھڑے ہیں، جن میں صرف خوراک ہی نہیں بلکہ زندگی بچانے والی دوائیں بھی موجود ہیں۔ ان میں کئی ایسی ادویات شامل ہیں جن کی مدتِ معیاد ختم ہونے کو ہے، لیکن ہم اسرائیلی اجازت کے منتظر ہیں۔”
رواں ہفتے اتوار کے روز “غزہ ریلیف ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن” کے سی ای او جیک ووڈ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اسرائیل کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے تحت کام کرنا انسانی ہمدردی کے بنیادی اصولوں سے انحراف ہوگا۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ انسانیت، غیر جانبداری، غیر امتیاز اور خودمختاری جیسے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کے تحت کوئی بھی امدادی منصوبہ قابلِ عمل نہیں رہتا۔
جیک ووڈ نے کہا کہ ان پابندیوں کے باعث لاکھوں ضرورت مند فلسطینیوں تک امداد کی رسائی تقریباً ناممکن ہو جاتی ہے، یوں امدادی مشن محض ایک رسمی کارروائی بن کر رہ جاتا ہے جس میں انسانیت کا حقیقی درد مفقود ہوتا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر بھی اس امدادی نظام پر تنقید بڑھتی جا رہی ہے جسے قابض اسرائیل اپنی سخت سکیورٹی نگرانی میں رکھ کر امدادی سامان کی تقسیم کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ ایسے علاقوں میں جہاں صرف سکیورٹی کلیئرنس کے بعد غزہ کے باشندوں کو داخلے کی اجازت ہو، وہاں امداد نہیں بلکہ ذلت بانٹی جا رہی ہے۔
قابض اسرائیل نے 2 مارچ 2024ء سے اب تک غزہ کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ تقریباً 24 لاکھ فلسطینی مسلسل قید و بند کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ خوراک ہے، نہ دوا، اور نہ ہی پناہ، نتیجہ یہ ہے کہ غزہ میں قحط نے ہولناک شکل اختیار کر لی ہے، جس میں اب تک سینکڑوں افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
قابض اسرائیل نے امریکہ کی مکمل پشت پناہی سے 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ پر جو ہولناک جنگ مسلط کر رکھی ہے، وہ عملاً ایک نسل کشی بن چکی ہے۔ اب تک 1 لاکھ 76 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ 11 ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں، اور لاکھوں لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ کر بے سروسامانی کی حالت میں در بدر پھر رہے ہیں۔