غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) فلسطین کے زخمیوں پر ہونے والے المیوں کی داستانیں لمحہ بہ لمحہ دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک دل دہلا دینے والی حقیقت کا انکشاف برطانیہ سے آئی معروف جراحہ ڈاکٹر وکٹوریہ روز نے کیا، جو ان دنوں جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں واقع ناصر ہسپتال میں تعینات ہیں۔
ڈاکٹر روز کا کہنا ہے کہ غزہ میں قابض اسرائیل کے صہیونی حملوں سے متاثرہ شہریوں کو جو خوفناک جلنے والی چوٹیں آ رہی ہیں، وہ اتنی شدید اور تباہ کن ہوتی ہیں کہ ان سے بچنا دنیا کے ترقی یافتہ ترین یورپی ہسپتالوں میں بھی مشکل ہوتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ “میں نے اپنی پوری زندگی میں اس قدر زیادہ اور ہولناک دھماکوں سے ہونے والی زخمیوں کی تعداد نہیں دیکھی، جیسی اب غزہ میں دیکھ رہی ہوں”۔
یہ پہلا موقع نہیں جب ڈاکٹر وکٹوریہ روز نے غزہ کا دورہ کیا ہو۔ اس سے قبل بھی وہ فلسطینیوں کے علاج کے لیے یہاں آ چکی ہیں۔ مگر اس بار وہ بچوں کے شعبے میں موجود ہیں اور ان کے مطابق “یہ ناقابل بیان اذیت ہے کہ ہم اتنے کم عمر بچوں کو بھی جلے ہوئے، جھلسے ہوئے دیکھ رہے ہیں”۔
ڈاکٹر روز نے وضاحت کی کہ ایسی بڑی اور شدید حروق جنہیں وہ اس وقت غزہ میں دیکھ رہی ہیں، مغرب میں بھی جہاں مکمل طبی سہولیات دستیاب ہیں، اکثر جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ “یہ زخم اکثر موت کا باعث بن جاتے ہیں”۔
ان کے بقول اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ہونے والے دوسرے قسم کے زخم اس وقت لگتے ہیں جب دھماکے کی شدت سے اردگرد کی تمام اشیاء تیزی سے حرکت کرتی ہیں اور تیز دھار چیزیں لوگوں کے جسموں میں پیوست ہو جاتی ہیں، جس سے سنگین گہرے زخم اور اعضا کی جزوی یا مکمل کٹائی کی نوبت آ جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بہت سے متاثرین خیموں میں رہتے ہیں، اس لیے جب وہ ناصر ہسپتال پہنچتے ہیں تو ان کے زخموں میں مٹی بھر چکی ہوتی ہے۔ “ہم سب سے پہلے ان زخموں کو صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں، پھر انہیں ڈھانپتے ہیں تاکہ جسم کا جتنا ممکنہ حصہ بچایا جا سکے، اسے بچا لیں”۔
ڈاکٹر روز نے کہا کہ ان سنگین طبی چیلنجز کو اس بات نے مزید گھمبیر بنا دیا ہے کہ غزہ میں طبی سہولیات تقریباً ختم ہو چکی ہیں اور خود ناصر ہسپتال کے کئی شعبے صہیونی بمباری میں تباہ ہو چکے ہیں، جن میں جلنے والے مریضوں کا وارڈ بھی شامل ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی امور کے مطابق غزہ کے 94 فیصد ہسپتال یا تو تباہ ہو چکے ہیں یا بری طرح متاثر ہیں۔ ان میں سے نصف مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی خبردار کیا ہے کہ غزہ میں طبی آلات اور بنیادی ادویات کا سنگین بحران پیدا ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 64 فیصد طبی آلات، 43 فیصد بنیادی ادویات اور 42 فیصد ویکسین ختم ہو چکی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی مشرقی بحیرہ روم کی علاقائی ڈائریکٹرڈاکٹر حنان بلخی نے جنیوا میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، “کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایک جراح ہڈی جوڑنے کا عمل بغیر کسی بے ہوشی کے کرے؟ یہاں وریدی سیال، سرنجیں، پٹیاں، سب کچھ نہایت قلیل مقدار میں موجود ہے”۔
انہوں نے مزید بتایا کہ غزہ کی سرحد پر عالمی ادارہ صحت کی 51 امدادی گاڑیاں کئی دنوں سے اجازت نامے کی منتظر کھڑی ہیں، مگر تاحال انہیں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔
انہوں نے انتہائی افسوس کے ساتھ کہا، “غزہ میں بنیادی ترین ادویات جیسے اینٹی بایوٹک، دردکش اور دائمی امراض کی دوائیں تک دستیاب نہیں”۔