غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ نے غزہ میں جاری صہیونی نسل کشی کی بھیانک حقیقت کو ایک اور زاویے سے بے نقاب کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق غزہ کی زرعی زمین کا 95 فیصد حصہ اب قابلِ کاشت نہیں رہا۔ وہی زمین جو جنگ سے قبل فصلوں اور زیتون کے باغات سے سرسبز تھی، اب خاکستر ہو چکی ہے۔
یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی خوراک و زراعت کی تنظیم “الفاؤ” نے اقوام متحدہ کے سیٹلائٹ مرکز کے تعاون سے جاری کی ہے۔ تنظیم کی نائب سربراہ بیتھ بیکڈول کا کہنا ہے کہ یہ صرف بنیادی ڈھانچے کی تباہی نہیں، بلکہ غزہ میں زرعی غذائی نظام کا مکمل انہدام ہے۔ یہ اس نظام کا خاتمہ ہے جو لاکھوں فلسطینیوں کی زندگی کی ڈور سے جڑا ہوا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں 7 اکتوبر 2023ء کو بنجمن نیتن یاھو کی قیادت میں قابض اسرائیل کی مسلط کردہ جارحیت نے زراعت کے تمام شعبوں کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ زیتون کے باغات، فصلوں کے کھیت اور آبپاشی کے نظام مکمل طور پر برباد ہو چکے ہیں۔ زمینوں کا صفایا کر دیا گیا ہے اور بیش تر کنویں تباہ ہو چکے ہیں، جس سے پانی کی قلت شدت اختیار کر چکی ہے۔
بیتھ بیکڈول نے کہا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی نہایت ناگزیر ہوچکی ہے تاکہ غذائی قحط کی اس ہولناک لہر کو روکا جا سکے اور ہنگامی امداد کی ترسیل کے ساتھ ساتھ بحالی کا ابتدائی عمل شروع کیا جا سکے۔ ان کے مطابق اس وقت غزہ کے 20 لاکھ سے زائد افراد کو فوری غذائی امداد درکار ہے۔
اقوام متحدہ کے عالمی خوراک پروگرام کے سربراہ برائے فلسطین انتوان رینارڈ نے بتایا کہ جنوبی غزہ میں 13 بیکریوں کو دوبارہ فعال کیا گیا ہے تاکہ بے گھر افراد کو گرم کھانا اور فوری خوراک فراہم کی جا سکے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے جاری کردہ حالیہ نقصان کے جائزے سے انکشاف ہوا ہے کہ اسرائیلی نسل کشی کے بعد غزہ میں باقی ماندہ 50 ملین ٹن ملبے کو ہٹانے میں کم از کم 21 سال لگیں گے اور اس پر 1.2 ارب ڈالر کی لاگت آئے گی۔ تباہ شدہ گھروں کی تعمیر نو میں کم از کم 2040 تک کا عرصہ درکار ہے۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا ہے کہ اس جنگ نے غزہ کی 69 سالہ ترقی کو مکمل طور پر مٹا دیا ہے۔ یہ ایک ایسی المیہ داستان ہے جو انسانی تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں رقم ہو چکی ہے۔