Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

ہیکل کی تعمیر کی پرچارک تنظیموں کی مسجد اقصیٰ کو یہودیانے کی خطرناک مہم

خصوصی رپورٹ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) حالیہ چند دنوں سے مسجد اقصیٰ پر قبضے اور اسے یہودی رنگ میں رنگنے کی کوششیں شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کو اپنا مرکز قرار دینے والے ایک توراتی مدرسے نے “یوم القدس” [پیر بمطابق 25 مئی 2025] کی مناسبت سے مسلمانوں کے تیسرے مقدس حرم پر جھتا بنا کر دھاوا بولنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ یہ دن یروشلم پر 1967ء میں قبضے کی عبرانی برسی کے طور پر منایا جایا ہے۔

القدس سے متعلق ماہرین کے مطابق امسال کی جانے والی مہم جوئی کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس سے متعلق اعلانات اور تشہیری مہم نہ صرف کھلے عام چلائی جا رہی ہے بلکہ مہم چلانے والوں نے اپنے نام اور شناخت چھپانے کا تکلف بھی برطرف رکھا چھوڑا ہے جو ان کی دیدہ دلیری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ نام نہاد یوم القدس سے متعلق اشتعال انگیز گیتوں کی دھنیں مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مشتہر کی جا رہی ہیں۔

مسجد اقصیٰ کے مقام پر مزعومہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کے پرچارک گروپوں نے اپنی خطرناک مہمات میں اس بات پر زور دیا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے اندر توراتی تعلیمات کی روشنی میں “شبینہ عبادت” باجماعت ادا کی جائے گی، جو حالیہ عرصے میں یہودی رسومات کے علانیہ نفاذ کا مسلسل دہرایا جانے والا اعلان بن چکا ہے۔ “مدرسہ جبل ہیكل” کے مذہبی پیشوا ربی الیشع وولفسون دوپہر 2 بج کر 15 منٹ سے شروع ہونے والی عبادت کی امامت کریں گے۔

القدس امور سے متعلق اپنی زیرک رائے اور سکہ بند تحقیق سے متعلق جانے جانے والے نامور محقق زیاد ابحيص نے “مرکز اطلاعات فلسطین” سے گفتگو میں کہا کہ ایسے واقعات پر بات کرنا اور انہیں عوام کے سامنے لانا بسا اوقات مشکل فیصلہ ہوتا ہے، کیونکہ اس سے خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں یہ مسجد اقصیٰ کے خلاف منظم صہیونی اشتعال انگیزی میں معاونت نہ بن جائے۔

زیاد ابحيص کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ ماضی میں، خاص طور پر 2018ء تک، یہ بدنام زمانہ گماشتے اپنی شناخت اور وابستگیوں کو چھپانے کی کوشش کرتے تھے، لیکن اب وہ اس قدر دلیر ہو چکے ہیں کہ علانیہ اشتعال انگیز مواد تیار کر رہے ہیں، جس میں وہ اپنے نام، چہرے اور عہدوں کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ یہ تبدیلی اس بات کی متقاضی ہے کہ ان سرگرمیوں کو سامنے لایا جائے، تاکہ امت، خواہ وہ قیادت ہو یا عوام، اس حقیقت سے آگاہ ہو سکے کہ مسجد اقصیٰ کی شناخت کو مسخ کرنے کا منصوبہ صہیونی ریاست کے ایجنڈے میں کس قدر مرکزی حیثیت اختیار کر چکا ہے، اور “ہیکل تعمیر کے پرچارک گروپس” کس حد تک اثر و رسوخ، قوت اور تسلط کے احساس میں مبتلا ہو چکی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس مدرسے کے بانی اور پہلے سربراہ، یہودی ربی الیاھو ویبر، 2013 اور 2015 میں ہونے والے بڑے حملوں کے دوران اپنا چہرہ ٹوپی سے چھپاتے تھے اور اپنے نام کا ذکر ہونے سے بھی خوفزدہ رہتےتھے۔ لیکن آج اسی مدرسے کا موجودہ سربراہ، الیشع وولفسون، نہ صرف اپنے چہرے اور شناخت کے ساتھ سامنے آ رہا ہے بلکہ اپنے طلبہ کے ساتھ مل کر اشتعال انگیز نغمے تیار کروا رہا ہے اور انہیں مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کھلے عام نشر بھی کر رہا ہے۔

اشتعال انگیز نغموں کی پہلی کڑی

انہوں نے اس امر کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ یہودیوں کے یروشلم پر مکمل قبضے کی عبرانی برسی کی تقریبات سے ایک دن قبل، جو کہ پیر کے روز منائی جاتی ہے، “مدرسہ جبل ہیکل التوراتيہ” نے اپنا پہلا اشتعال انگیز نغمہ جاری کیا ہے، جو کہ مزعومہ”ہیکل” کے قیام کے لیے تیار کی جانے والے اشتعال انگیز نغموں کے ایک سلسلے کا حصہ ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ “مدرسہ جبل ہیکل الدینیہ” کے مہمتم اور یہودی ربی الیشع وولفسون نے اشتعال انگیز گیت اپنی آواز میں گایا جس میں مدرسے کے طلبہ اور دیگر یہودی پیشوا بطور ہمنوا شامل تھے۔ اس نغمے کے کچھ مناظر مسجد اقصیٰ کے اندر، خاص طور پر جامع مسجد القبلی کے سامنے، اقصیٰ کے مشرقی صحن میں، اور مراکشی دروازے پر جہاں سے یلغار کرنے والے داخل ہوتے ہیں، فلمائے گئے ہیں۔

محقق زیاد ابحيص کے مطابق زیادہ تر عکس بندی مسجد اقصیٰ کے جنوب مغربی حصے میں واقع “نار التوراۃ” نامی یہودی میوزیم کی چھت پر کی گئی ہے۔ یہ مقام مسجد اقصیٰ سے تقریباً 150 میٹر کے فاصلے پر ہے۔ میوزیم کی انتظامیہ نے اس چھت کو خاص طور پر شادیوں اور عام اجتماعات کے لیے کرائے پر دینے کے لیے تیار کیا ہے،اور اس پر ایک شمعدان اور مزعومہ ہیکل کا مجسمہ نصب کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے یہ جگہ قدیم شہر میں یہودی سیاحت کا ایک مرکزی مقام بن چکی ہے۔

انہوں نے خصوصیت سے اس امر کی نشاندہی کی کہ اشتعال انگیز گیت گانے والے گلوکار اقصیٰ پر یلغار کے وقت ایک بورڈ اٹھائے ہوئے ہیں، جس میں مسجد اقصیٰ کے بجائے صرف “ہیکل” کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے، جو دراصل ان کے مذہبی تبدیلی کے عزائم کو واضح کرتا ہے۔ اس کے بعد عسکری یونیفارم پہنے ہوئے فوجیوں میں “ہیکل” کے نشانات تقسیم کیے جاتے ہیں، جو اس بات کی علامت ہیں کہ وہ مسجد اقصیٰ کو “ہیکل” میں تبدیل کرنے کے لیے مذہبی تبدیلی کا یہ عمل فوجی طاقت کے ذریعے ممکن سمجھتے ہیں۔

القدس امور کے ماہر محقق نے بتایا کہ یہ نغمہ “ہیکل” کا جھنڈا دکھاتا ہے جسے غزہ کی نسل کشی کی جنگ کے دوران کچھ قابض فوجیوں نے اپنی ٹینکوں پر لہرایا تھا۔ اس میں مزعومہ “ہیکل” کے خیالی ماڈل بھی دکھائے گئے ہیں جو مسجد اقصیٰ کی جگہ کے مطابق ہیں، اور اس کا مرکزی حصہ، جسے تورات میں “قدس الاقداس” کہا جاتا ہے، قبۃ الصخرا [پہاڑی کے گنبد] کے مقام پر رکھا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، نغمے میں قابض پولیس کا ایک اہلکار بھی دکھایا گیا ہے جو “جماعات ہیکل” سے تعلق رکھتا ہے اور انہیں دروازے پر خوش آمدید کہتا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ وہ اپنا مطلوبہ اثر و رسوخ اور کنٹرول کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس نغمے کے الفاظ نے مزعومہ”ہیکل” کی توراتی اہمیت پر زور دیا گیا ہے، جسے مذہبی صہیونی گروہ “روح القدس کے مسکن” مانتے ہیں۔ نغمے میں “ہیکل” کی تعریف ایک علامت کے طور پر کی گئی ہے جو یروشلم پر مکمل یہودی شناخت مسلط کرنے کی نمائندگی کرتا ہے، اور یہودیوں کی دنیا بھر میں منتشر برادری کو دوبارہ اکٹھا کرنے کے مقصد کی علامت بھی ہے۔

اپنی گفتگو کے اختتام پر ابحيص نے اس بات پر سختی سے متنبہ کیا کہ اس سال جماعاتِ ہیکل کی جانب سے کیا جانے والا اشتعال انگیز پروپیگنڈا نہ صرف اپنے ماضی سے مختلف ہے بلکہ اس کی حکمتِ عملی اور ذرائع بھی پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک اور منظم ہیں۔ یہ سب کچھ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسجد اقصیٰ آج بروز پیر کے روز ایک نئے اور سنگین حملے کی زد میں آ سکتی ہے، اگر کوئی مؤثر ردعمل سامنے نہ آیا جو ماضی کی طرح جارحیت کو روکے اور یلغار کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرے، جیسا کہ 2021 میں “معرکہ سیف القدس” کے دوران ہوا تھا۔

حاکمیت مسلط کرنے کی حکمت عملی

دریں اثنا قدس امور کے ایک اور ماہر محقق علی ابراہیم نے بھی ان خدشات کی تائید کی اور “جماعاتِ ہیکل” کے حالیہ اعلانات کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب دراصل قابض اسرائیلی حکومت کی اُس منظم حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس کے تحت مسجد اقصیٰ پر مکمل “اسرائیلی” کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ایک اخباری بیان میں ابراہیم نے میں کہا ہے کہ یہودیوں کی نئی دعوت کی خاص بات اس کی علانیہ نوعیت اور تنظیم ہے جس کی قیادت “جماعاتِ ہیکل” کے ایک اہم ترین ربی کر رہے ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں جہاں توراتی رسومات صرف افراد تک محدود نہیں رہیں بلکہ اب یہ رسومات مسجد کے اندر باجماعت صورت میں ادا کی جا رہی ہیں اور یہ سب قابض فوج کی حفاظت میں ہو رہا ہے، یہ اقدام “مسجد اقصیٰ کے خلاف معنوی بنیادوں پر قابض ہونے کے منصوبے” کا حصہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 1967 میں مشرقی یروشلم پر قبضے کی سالگرہ کا استعمال ان رسومات کو زندہ کرنے کے لیے اس حملے کی علامتی پہلوؤں کو بے نقاب کرتا ہے، یہ واقعات مسجد اقصیٰ کے خلاف مسلسل منصوبہ بند کاروائیوں کا حصہ ہیں، جو شہر کو مکمل طور پر یہودی رنگ میں رنگنے اور اسرائیلی بنانے کے منصوبوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں، جیسا کہ “قدس پریس” نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے۔

قومی سیاسی اور سلامتی کا امتحان

انہوں نے کہا کہ “یوم القدس” کے موقع پر اجتماعی طور پر کیے جانے والے اس دھاوے کا مقصد صرف مذہبی نہیں بلکہ یہ فلسطینی، عرب اور اسلامی عوام کی ردعمل کی سیاسی اور سکیورٹی کی سطح پر آزمائش ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا “کیا یہ دھاوہ محض ایک مذہبی رسم ہے؟ یا یہ عرب اور اسلامی دنیا کی خاموشی کی حدوں کا نیا امتحان ہے، خاص طور پر غزہ پر مہینوں سے جاری حملوں اور یروشلم میں منظم یہودی آباد کاری کے پس منظر میں؟”

انہوں نے نشاندہی کی ہے کہ “اسی نوعیت کے واقعات 28 رمضان 2021 میں بھی پیش آئے تھے، تب فلسطینی مزاحمت کاروں کی مداخلت کے بعد (سيف القدس) کا معرکہ بپا ہوا، جو مسجد اقصیٰ کی حفاظت کر لئے اندر بیٹھے مرابطین کی حمایت کے لیے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج قابض قوتیں زیادہ فوجی نفری جمع کر رہی ہیں اور یہ رسومات زیادہ کھلے عام انجام دے رہی ہیں، تاکہ غزہ میں عسکری روک تھام کی ناکامی کے بعد میدان میں اپنی علامتی برتری ثابت کر سکیں۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan