Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

غزہ میں زندگی کی علامت ” ننھی مؤرخ” یقین حماد جو اپنی شہادت خود فلم بند کر گئی

غزہ  (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ کے مہاجر کیمپوں میں جہاں ہر لمحہ بارود کی بُو رچی رہتی ہے، سائرن کی چیخیں سکوت کو چیرتی ہیں اور موت در و دیوار سے جھانکتی ہے، وہ ننھی بچی یقیـن خضر حماد اپنے موبائل کیمرے سے زندگی کی جھلکیاں قید کر رہی تھی۔ محض تیرہ سال کی عمر میں اس بچی نے خوف کی دیوار پھلانگ لی تھی اور موت کے سائے تلے بھی وہ مسکراتی رہتی تھی۔

یقیـن محض ایک بچی نہیں تھی، وہ غزہ کی روزمرہ زندگی کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔ ایسی تصویر جو خبروں سے آگے بڑھ کر ان بچوں کی کہانی سناتی تھی جو راکھ سے کھلونے بناتے ہیں جو مٹی سے اُمید کا چراغ جلاتے ہیں۔

وہ کبھی ہنستی کبھی باتیں کرتی، اپنی ویڈیوز میں ناظرین کو ایسے مخاطب کرتی جیسے جانتی ہو کہ ایک دن یہ ویڈیوز اس کی زندگی نہیں اس کی شہادت کی گواہی بنیں گی۔

اور وہ لمحہ آ ہی گیا۔ جمعے کی شام اس کے کیمرے نے آخری بار ریکارڈنگ کی۔ اس بار وہ زندگی نشر نہیں کر رہی تھی بلکہ زندگی کو وداع کہہ رہی تھی۔

ایک اسرائیلی فضائی حملے نے اُس جگہ کو نشانہ بنایا جہاں وہ موجود تھی۔ اس کا موبائل جو اس کے خوابوں کا ساتھی تھا اب اس کا کتبہ بن گیا۔ اس کی مسکراتی تصویر، ڈیجیٹل دنیا کے ہر کونے میں بچھڑنے کی ایک ایسی آہ بن کر پھیل گئی، جو ہر فلسطینی دل کو چیرتی ہے۔

یہ ایک ایسا وقت ہے جہاں زندگی کے ساتھ ساتھ یادیں بھی بمباری کا نشانہ بن رہی ہیں۔ یقیـن بھی ان ہزاروں بچوں میں شامل ہو گئی جو گواہ تھے، مگر پھر شہید ہو گئے۔ لیکن یقیـن خاموش نہیں تھی۔ وہ آخری لمحے تک زندگی کا ترانہ گاتی رہی۔

یقیـن غزہ کا بولتا بچپن

یقیـن کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس محصور زندگی کا روشن دریچہ تھے۔ وہ اپنے ننھے دوستوں کے ساتھ کھیلتی دکھائی دیتی، یتیم بچوں کے لیے چندہ جمع کرنے کی اپیل کرتی، خیموں میں چھوٹے چھوٹے پروگراموں میں خوشیاں بانٹتی۔

اس کی ویڈیوز سادہ مگر دل کو چھو لینے والی تھیں۔ ایک ویڈیو میں وہ کہتی ہے: “میں کوشش کرتی ہوں بچوں کو خوش رکھوں، شاید ہم تھوڑی دیر کو جنگ بھول جائیں”لیکن جنگ اسے نہیں بھولی نہ ہی اس کے پورے نسل کو۔

وہ جنگ جو بچپن کو نگل رہی ہے

فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق اس تازہ اسرائیلی جارحیت کے دوران اب تک 16 ہزار سے زائد بچے شہید ہو چکے ہیں۔ جب کہ کل شہداء اور زخمیوں کی تعداد 1 لاکھ 75 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔

یہ محض اعداد و شمار نہیں۔یہ وہ جلتے ہوئے سکول بیگ ہیں وہ ادھ جلی کاپیاں ہیں جن میں معصوم ہاتھوں نے امتحان کی تیاری کی تھی۔ وہ ننھی دل ہیں جو سالگرہ منانے کی امید رکھے بیٹھے تھے۔

اقوام متحدہ کی اطفال حقوق کمیٹی نے اس جنگ کو انسانیت کے لیے ایک ہولناک المیہ قرار دیا ہے۔

جبکہ اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی ’انروا‘ نے اعلان کیا کہ غزہ میں اس جارحیت کے دوران مارے گئے بچوں کی تعداد، دنیا بھر کی چار سالہ جنگوں کے مجموعی اعداد سے کہیں زیادہ ہے۔
۔
یقیـن وہ شہید جو اپنی شہادت خود فلم بند کر گئی

حقیقت یہ ہے کہ جنگیں کبھی منصفانہ انجام نہیں لکھتیں، مگر یقیـن نے ایک منفرد اور مکمل الوداع لکھا۔ اس کی ہنسی کی آوازیں آج بھی باقی ہیں۔ اس کی ویڈیوز آج بھی گردش کر رہی ہیں۔ اور شاید ہمیشہ کرتی رہیں گی۔دنیا کو یہ یاد دلاتی ہوئی کہ غزہ صرف لہو میں ڈوبا ہوا شہر نہیں بلکہ وہ سرزمین ہے جو ہر قطرہ خون سے کہانی سناتی ہے ۔ یہاں تک کہ جب صرف ایک کیمرہ ہی باقی رہ جائے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan