غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ کی محصور سرزمین جہاں ہر سانس بھوک، خوف اور محرومی کی گواہی بن چکی ہے، وہاں قابض اسرائیل ایک نیا مکروہ کھیل کھیل رہا ہے۔ دو ماہ سے زائد کی مکمل ناکہ بندی کے بعد اچانک چند درجن امدادی ٹرکوں کی اجازت، انسانیت کے نام پر ایک نئی چال بازی اور دھوکہ ہے ۔ ایسا دھوکہ جو بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونک کر قابض ریاست کی مکروہ تصویر کو دنیا کے سامنے صاف کرنا چاہتا ہے۔
مرکز برائے فلسطینی انسانی حقوق نے اپنے بیان میں اس سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ اسرائیل کا نام نہاد انسانی رویہ درحقیقت ایک بے رحم مداخلت ہے، جو نہ صرف امدادی کارروائیوں کو محدود کر رہا ہے بلکہ غزہ کے باسیوں پر “منظم بھوک” مسلط کر کے ان کی بنیادی انسانی اقدار کو پامال کر رہا ہے۔
محدود امداد، بڑھتی بے بسی
کرم ابو سالم کراسنگ سے داخل ہونے والی امدادی گاڑیوں کی تعداد درجنوں سے آگے نہ بڑھ سکی، جب کہ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی زندہ رہنے کی بنیادی ضروریات کے لیے روزانہ کم از کم 600 ٹرک درکار ہیں لیکن آج بھی سیکڑوں ٹن امدادی سامان، دوائیں، طبی سازوسامان اور غذائی اشیاء اسرائیلی رکاوٹوں کی نذر ہو کر غزہ کی دہلیز پر تباہی سے دوچار ہو رہے ہیں۔
قابض فوج کی جانب سے جاری کی گئی اطلاعات اور زمینی حقائق میں واضح تضاد موجود ہے۔ چند درجن ٹرک اگر غزہ پہنچے بھی تو وہ بھی اسرائیلی شرائط کے ساتھ، جن میں امداد کو مخصوص علاقوں تک محدود رکھنے اور تقسیم پر مکمل نگرانی شامل ہے۔
انتشار، لوٹ مار اور جانوں کا زیاں
یورومیڈ کے سربراہ رامی عبدہ نے صورتحال کی سنگینی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ عالمی ادارہ خوراک کی ناقص منصوبہ بندی نے امدادی تقسیم کو بدنظمی، لوٹ مار اور فاقوں میں بدل دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف “انروا” کے پاس وہ ڈھانچہ موجود ہے جو عزت نفس کے ساتھ مؤثر امداد کو ممکن بنا سکتا ہے لیکن قابض اسرائیل جان بوجھ کر انروا کو عمل سے باہر رکھنا چاہتا ہے تاکہ امدادی نظام کو اپنے سیاسی عزائم کے تحت استعمال کر سکے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ دَیر البلح میں امدادی قافلے نہ صرف لُوٹے گئے بلکہ جب انہیں سکیورٹی فراہم کرنے کی کوشش کی گئی تو اسرائیلی جنگی طیاروں نے خود سکیورٹی ٹیموں کو نشانہ بنا کر چھ نوجوانوں کو شہید کر دیا ۔ یہ وہ نوجوان تھے جو مظلوموں کی مدد کے لیے اپنے سینے آگ میں ڈالے کھڑے تھے۔
بھوک ایک ہتھیار، امداد ایک چال
اقتصادی تجزیہ کار احمد ابو قمر نے اسرائیلی طرزعمل کو “بھوک کی انتظامیہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب بھوک خود ایک منظم پالیسی کا روپ دھار چکی ہے۔ امداد کی تقسیم کو جس طرح سے قابض ریاست کنٹرول کر رہی ہے، وہ فلسطینیوں کو دانستہ طور پر معاشرتی طور پر مفلوج کرنے کی کوشش ہے۔
نیٹ ورک آف پبلک آرگنائزیشنز کے سربراہ امجد الشوا نے مطالبہ کیا کہ آٹے کی تقسیم براہ راست متاثرہ خاندانوں میں ان کے گھروں کے قریب کی جائے تاکہ مزید افرا تفری اور ہلاکتوں سے بچا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ تقسیم ایک منظم، خاندانوں کی تعداد کے مطابق اور عزت نفس کے ساتھ ہونی چاہیے۔
منصوبہ ساز قتلِ عام
قابض اسرائیل کا منصوبہ واضح ہے۔ امداد کی آڑ میں مخصوص علاقوں جیسے رفح میں فلسطینیوں کو یکجا کرنا، شمالی اور وسطی غزہ کو انسانی وجود سے خالی کرنا اور ان علاقوں کو تباہ شدہ زمین میں تبدیل کرنا،امداد یہاں ایک انسانی ذمہ داری نہیں بلکہ سیاسی آلہ کار بن چکی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کا یہ بیان کہ امداد کی اجازت “فوجی کارروائی کے لیے ضروری” ہے، دراصل اس گھناؤنے منصوبے کا کھلا اعتراف ہے کہ خوراک اور دوا اب قابض ریاست کے ہاتھوں میں ایک جنگی ہتھیار بن چکی ہے ایک ایسا ہتھیار جو بچوں، عورتوں، مریضوں اور بزرگوں سب کو یکساں نشانہ بنا رہا ہے۔
مرکز برائے فلسطینی انسانی حقوق نے سخت الفاظ میں خبردار کیا ہے کہ قابض اسرائیل امدادی عمل کو دانستہ سیاسی حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہے تاکہ فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کیا جا سکے، ان کی آبادی کو منتشر کیا جا سکے اور ایک زندہ، مزاحمت کرتی قوم کو بھوک، موت اور تباہی کی سرحد پر لا کھڑا کیا جائے۔