غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) عالمی ادارۂ صحت کی ترجمان مارگریٹ ہیرس نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں صحت کی صورتحال “تباہ کن” ہو چکی ہے اور یہ خطہ مکمل طور پر “ہلاکت کے کنارے” پہنچ چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قابض صہیونی محاصرے کے باعث تقریباً دو ماہ سے کسی بھی قسم کی امدادی اشیاء یا طبی سامان غزہ میں داخل نہیں ہو سکیں، جس کے نتیجے میں شہریوں کو بڑھتے ہوئے طبی خطرات کا سامنا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ غزہ کے عوام اس وقت ہر بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ ان کے پاس خوراک ہے، نہ صاف پانی، نہ رہائش، اور نہ ہی طبی سہولتوں تک رسائی۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ لوگ اب ہسپتال جانے سے بھی خوفزدہ ہیں کیونکہ کئی ہسپتالوں کو اسرائیلی افواج نے نشانہ بنایا ہے۔
مارگریٹ ہیرس نے اناتولیہ خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ غزہ کے ڈاکٹروں اور نرسوں کے پاس شدید زخمیوں کی دیکھ بھال کے لیے ضروری سامان موجود نہیں۔ خون کے بیگ، ڈرِپ لگانے کے یونٹس، زخم صاف کرنے کے لیے روئی تک ناپید ہے، جبکہ اینٹی بایوٹک ادویات کی قلت انفیکشن کے خطرات کو کئی گنا بڑھا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ روزانہ زخمی افراد مختلف قسم کی خطرناک چوٹوں کے ساتھ ہسپتالوں میں آ رہے ہیں، جن میں ہڈیوں کے ٹوٹنے، گہرے زخم اور دیگر شدید جسمانی چوٹیں شامل ہیں جو آسانی سے انفیکشن میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ غزہ کے عوام کو روزانہ بمباری کا سامنا ہے، جس کے باعث یہ زخم مزید سنگین ہو جاتے ہیں۔
مہلک وبائی امراض کا خطرہ
عالمی ادارۂ صحت کی ترجمان نے نشاندہی کی کہ غزہ کے شہری نہایت دشوار حالات میں جی رہے ہیں۔ شدید غذائی قلت، تنگ اور گنجان رہائشی حالات وبائی بیماریوں کے پھیلاؤ کو بڑھا رہے ہیں۔ بیشتر افراد اسہال اور آلودہ پانی کے باعث شدید بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں، جس نے صحت کے بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
ہیرس کے مطابق غزہ کے ہسپتال مریضوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں اور اپنی استعداد سے کہیں زیادہ بوجھ برداشت کر رہے ہیں۔ فی الحال غزہ میں 21 ہسپتال اور 4 فیلڈ ہسپتال موجود ہیں، لیکن کسی کے پاس بھی اتنی گنجائش نہیں کہ وہ تمام مریضوں کا مؤثر علاج کر سکے۔
انہوں نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ ہسپتال اکثر مریضوں کو مکمل صحتیابی سے قبل ہی گھر بھیجنے پر مجبور ہو جاتے ہیں تاکہ نئے مریضوں کو داخل کیا جا سکے۔ بعض مواقع پر مریضوں کو ہسپتال کے راہداریوں میں رکھا جاتا ہے، جو اموات کی شرح میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے۔
امدادی سامان سے بھرے ٹرک بارڈر پر کھڑےہیں
ہیرس نے اس بات پر زور دیا کہ امدادی سامان کی عدم رسائی نے صحت کے شعبے میں کام کرنے والوں کے لیے حالات کو نہایت کٹھن بنا دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عالمی ادارۂ صحت نے جنگ بندی کے دوران دو بڑے گوداموں میں طبی سامان ذخیرہ کیا تھا اور غزہ میں ایک ٹیم تعینات کی تھی، لیکن اب سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ “ہمارے پاس اب بھی بڑی مقدار میں طبی سامان موجود ہے اور 16 امدادی ٹرک غزہ کی سرحد پر منتظر کھڑے ہیں، لیکن انہیں داخلے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غزہ کے طبی عملے کے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔ ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں اور خطرہ ہر لمحے بڑھ رہا ہے”۔
انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ عالمی ادارۂ صحت ہر حال میں غزہ میں موجود رہے گا۔ ان کے مطابق ادارہ صرف طبی سامان فراہم نہیں کرتا بلکہ وبائی امراض کی نگرانی اور مریضوں کے انخلاء کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔
واضح رہے کہ قابض اسرائیل نے گزشتہ دو ماہ سے غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل مکمل طور پر بند کر رکھی ہے۔ 2 مارچ کو اسرائیلی حکام نے تمام امدادی راہداریوں کو بند کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں خوراک، ایندھن اور دیگر ضروری اشیاء کا داخلہ مکمل طور پر رک چکا ہے۔
اس فیصلے نے غزہ کے شہریوں کے لیے پہلے سے موجود تباہ کن حالات کو مزید بدتر کر دیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مکمل طور پر بین الاقوامی امداد پر انحصار کرتے ہیں، کیونکہ اسرائیل کی جاری نسل کشی کی جنگ نے انہیں معاشی و انسانی لحاظ سے مکمل طور پر بےیار و مددگار بنا دیا ہے۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی حملوں میں اب تک 170 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے، جبکہ 11 ہزار سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں۔