غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ میں معصوم اور بے گناہ فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کے دوران ہونے والے ہولناک جرائم اور قتل عام کے ان گنت لرزہ خیز واقعات ہیں کہ ان کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی کلیجہ پھٹتا ہے۔
اسرائیل نے ہم سے ہمارے خواب چھین لیے
ایسا ہی ایک ہولناک اور دلخراش جرم ابراہیم ابو مہادی کے چھ جوان بیٹوں کی ایک ہی وقت میں درندہ صفت صہیونیوں کے ایک بزدلانہ حملے میں شہادت کا ہے۔ غزہ کے ہزاروں والدین اپنے ایک سے زیادہ بچوں کو ارض فلسطین پر قربان کرچکے ہیں مگر ابو مہادی کا دکھ اور صدمہ ما سوا ہے۔ پہاڑ جیسی استقامت اور صبر استقلال کے کوہ گراں ابو مہادی نے اپنے چھ جوان بیٹوں احمد، محمود، محمد، مصطفی، ذکی اور عبداللہ کی نماز جنازہ خود پڑھائی۔ نماز جنازہ میں شریک ہر آنکھ اشک بار تھی مگر بہادری اور صبرو ثبات کے پہاڑ ابو مہادی اپنے چھ بیٹوں کی شہادت پراپنے صدمے کو اندر ہی اندر چھپائے ہوئے تھے۔
دکھی والد صبرو استقامت کا پہاڑ
ابراہیم ابو مہادی پہاڑ کی طرح ثابت قدم کھڑے اپنے چھ بیٹوں کی نماز جنازہ ادا کر تے ہوئے بھی شہدائے فلسطین کے لواحقین کے لیے ایک مثال تھے۔
وہ ناقابل یقین صبر کے ساتھ کھڑے تھے۔ان کی زندگی مشکلات سے بھرپور گذری مگر جو صدمہ اور تکلیف انہیں چھ بیٹوں کی شہادت کی صورت میں پہنچی وہ دیگر تمام تکالیف سے بھاری تھی۔
اس موقعے پر ابو مہادی نے کہا کہ دیگر نوجوانوں کی طرح میرے بچوں کے بھی کچھ خواب تھے مگر ہمارے خواب شہادت میں بدل گئے۔
خیال رہے کہ دو روز قبل صہیونی فوج نے غزہ کے دیر البلح میں ایک گاڑی پربمباری کی جس کے نتیجے میں ابو مہادی کے چھ جوان بیٹے اور عبداللہ الھبش شہید ہوگئے تھے۔
اس گھناؤنے جرم نے ان کے اہل خانہ، دوستوں اور ان کے جاننے والوں کے دلوں میں گہرا درد اور غم چھوڑا ہے۔
والد ابراہیم ابو مہادی نے اپنے چھ جوان بیٹوں کی شہادت پر شدید درد بھرے لہجے میں بات کی۔
انہوں نے کہا کہ’’میں نے اس زندگی کی سب سے قیمتی چیز کھو دی ہے۔ میرا دل غم اور صدمے سے چور ہے، میرے جوان سال بیٹے میری امید اور میری تمنا تھے۔ وہ اپنے ملک کی تعمیر اور بہتر زندگی کا خواب دیکھتے تھے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ یہ اللہ کی مرضی ہے۔ اس عظیم نقصان کے باوجود مجھے یقین ہے کہ یہ شہداء اب جنت میں بہتر جگہ پر ہیں۔ ان کا خون ہمارے ملک کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کی ترغیب ثابت ہوگا”۔
اپنے درد کو سینے میں چھپاتے ہوئے دکھی والد نے مزید کہاکہ “اسرائیلی حملہ بے رحمانہ ، بزدلانہ اور غدارانہ تھا۔ بزدل دشمن نے ایک ایسی سول گاڑی کو نشانہ بنایا جس کی وجہ سے اسے کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔ پھر بھی اس نے میرے چھ بیٹے مجھ سے چھین لیے۔لیکن سب کچھ ہونے کے باوجود ہمارے دل فخر سے سرشار ہیں۔ وہ مرے نہیں بلکہ شہید ہوئے۔یہ سب سے بڑا اعزاز ہے جو بہت بڑے صبراور برداشت کا تقاضا کرتا ہے‘۔
جب وہ نماز جنازہ ادا کرنے کے لیے اپنے بیٹوں کی لاشیں لے کر جا رہے تھے یہ ایک غیر معمولی صبر اور استقامت کا پہاڑ لگ رہے تھے۔ ابراہیم ابو مہادی نے غم اور صدمے کو خود پر غالب نہیں آنے دیا حالانکہ ان کا کلیجہ چھلنی تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے بیٹوں نے اپنی جان اس ملک کے لیے دی ہے جس سے وہ پیار کرتے ہیں اور اس کے لیے قربانیاں دیتے ہیں۔
ہمیں درد کے باوجود ان پر فخر ہے:ماں
چھ جوان سال بیٹوں کی شہادت پر کون سی ماں ایسے ہولناک سانحے کو برداشت کرسکتی ہے۔مگر چھ بیٹوں کی چہرہ اداس اور آواز درد سے بھرپور ہونے کے باوجود صابر تھیں۔ درد بھرے لہجے میں انہوں نے کہا کہ “میں نے ہمیشہ انہیں اپنے اچھے کاموں سے وطن سے محبت کا اظہار کرتے دیکھا۔ان کے بڑے عزائم تھے، وہ قابض اسرائیلی جارحیت سے اپنی جانیں گنوا بیٹھے، لیکن مجھے ان پر فخر ہے کہ وہ ایک مقدس مقصد کے لیے شہید ہوئے۔ ہم صدمے میں مگر ان کی شہادت پر فخر بھی کرتے ہیں۔ میں چھ شہید بچوں کی ماں بن گئی ہوں اور یہ اللہ کی طرف سے میرے لیے اعزاز ہے۔
انہوں نے کہا کہ ” میرے بیٹوں نےہمیشہ اپنے وطن اور اپنی سرزمین کا دفاع کیا۔معاشرے کے تئیں کبھی کسی ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹے۔ میں ہر فلسطینی سے کہنا چاہوں گی کہ یہ شہداء صرف میرے بیٹے نہیں بلکہ ہم سب کے ہیں، ان کی میراث ہمارے دلوں میں زندہ رہے گی۔ وہ جس پرچم کی سربلندی کے دوران شہید ہوئے، ہم سب کو اس پرچم کو اٹھائے رکھنے کی ضرورت ہے‘۔
غز ہ میں سیکڑوں شہداء کےجنازے روزکا معمول بن چکے ہیں، مگر ان چھ حقیقی بھائیوں کی نماز جناز میں ہر آنکھ اشکبار تھی۔ ہر چہرہ اداس اور ہر آواز بھرائی ہوئی تھی۔ ہر ایک شکستہ دل تھا مگر ان کی شہادت نے صہیونی درندوں کے خلاف فلسطینیوں کی نفرت اور بڑھا دی تھی۔ جنازے کا جلوس مزاحمت کے نعروں سے گونج اٹھا۔