تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
عیدالفطر کے بعد سے پاکستانی قوم ایک مرتبہ پھر جوش میں آ چکی ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیا پر غزہ میں ہونے والی خطر ناک بمباری نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی سیاسی ومذہبی جماعتوں کو یاد دہانی کروا دی ہے کہ غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے بعد جنگ ختم نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی قتل عام ختم ہوا تھا۔ اگر چہ غزہ کے ساتھ ساتھ اس وقت لبنان، یمن اور شام بھی امریکی اور اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن رہاہے لیکن بہر حال پاکستان میں ایک مرتبہ پھر تمام دھڑوں نے غزہ کی بات کرنا شروع کر دی ہے۔ مین اسٹریم میڈیا جو کافی عرصہ سے غزہ پر ایک طریقہ سے خاموشی اختیا ر کر چکا تھا اب دوبارہ سے غزہ میں ہونےوالی جارحیت کو بیان کر رہاہے۔ ایسے ہی حالات میں جیونیوز نامی ٹی وی چینل پر کام کرنے والے ایک زر خرید غلام نے فلسطینیوں کی مزاحمت کو دہشت گردی سے تعبیر بھی کر دیا تھا لیکن اب چونکہ غزہ پر ہولناک بمباری سوشل میڈیا پر آشکار ہو رہی ہے تو اس طرح کے نیوز چینل بھی مجبوری میں غزہ کی خبریں دے رہےہیں۔
پاکستان کی سیاسی و مذہبی اعلیٰ قیادت بھی حرکت میںآئی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی بیان دیا ہے ۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب نے پہلی مرتبہ سخت موقف لیتے ہوئے اقوام متحدہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیاہے اور کہا ہے کہ جب یہ عالمی ادارہ غزہ میں ظلم بند نہیں کروا سکتا تو پھر اس کا کیا فائدہ ہے ؟
بہر حال ہر طبقہ میں ایک مرتبہ پھر بیداری آئی ہے، چھوٹے چھوٹے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، بڑی بری ریلیوں اور جلسوں کے اعلانات بھی کر دئیے گئے ہیں۔ حماس کی اپیل پر سات اپریل کو عالمی ہڑتال کے عنوان سے پاکستان کے تاجروںنے حمایت بھی کر دی ہے اب اگر چہ مکمل طور پر یہ ہڑتال کامیاب اس معنوں میں نہیں ہوئی ہے کہ بہت سے تاجروںنے دکانیں اور مارکیٹ کھول رکھی ہیں۔
لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کے نوجوانوں اور سیاست دانوں سمیت مذہبی رہنمائوں کو تشویش تو لا حق ہوئی ہے لیکن اس تشویش سے بہتر ہے کہ ہمیں اپنی غلطیوں کا احساس ہونا چاہئیے کہ ہم نے جنگ بندی کے معاہدے کے بعد سے غزہ کے معاملہ کو سردخانہ میں کیوں جانے دیا؟ آخر کیوں ہمارے احتجاج اور جلسوں میں کمی واقع ہوئی ؟ آخر کیوں ہم نے امریکی و اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کم کر دیا ؟ کیا غزہ جنگ بندی معاہدے کا مطلب یہ بتایا گیا تھا کہ مسئلہ فلسطین حل ہو گیا ہے ؟ ہر گز ایسا نہیں تھا۔
آج غزہ میں ہونے والی بمباری میں انسانی اعضاء بم دھماکوں کی شدت سے ہوا میں اڑتے نظر آ رہے ہیں شاید اس لئے کہ وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ دیکھوں ہم اب بھی قتل ہو رہےہیں اور تمھارے تعاون اور مدد کے منتظر ہیں۔
اس مرتبہ جو بیداری آئی ہے تو یہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ ا س تحرک اور بیداری کو سست نہ ہونے دیں، اس بیداری کو مغربی ذرائع ابلاغ کے منفی پراپیگنڈا کا شکار نہ ہونے دیں ۔عوام کو حرکت میں رکھیں ۔ یوتھ اور نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ بغیر کسی وقفہ کے فلسطین کے لئے احتجاجی تحریک کے دائرہ کو وسعت دیں اور اس سلسلہ کو تھمنے نہ دیں۔
عوام کے تمام طبقا ت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایک مشترکہ رائے عامہ ترتیب دے کر حکومت کو قائل کریں کہ حکومتیں ایسے اقدامات کی طرف جائیں جس سے مسئلہ فلسطین کی حمایت کو زیادہ سے زیادہ تقویت حاصل ہو سکے۔ حکومتوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کے لئے موثر اور جارحانہ سفارتکاری اپنائیں۔ اگر چہ پاکستان میں ایک مایوس سوچ اس لئے بھی جنم لے چکی ہے کیونکہ پاکستان کی حکومتوںنے مسئلہ کشمیر کا سودا کر لیا ہے کیونکہ کشمیر پر حکومت کی خاموشی اور سرد پالیسیوں نے عوام کے اذہان میں سوالات ابھار دئیے ہیں تاہم عوام کو ایسا لگ رہاہے کہ پاکستان جیسا ایٹمی ملک بھی فلسطینیوں کی مدد کرنے سے قاصر ہے۔
لہذا اب سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام خود متحرک رہیں اور اپنے جذبہ کو سرد نہ ہونے دیں۔ جب تک غزہ پر جارحیت بند نہ ہو پاکستان کے عوام کو بیداری کا ثبوت دینا ہوگا اور احتجاج جاری رکھنا ہو گا ۔ احتجاج کی کئی ایک اقسام ہیں جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ این جی اوز اور اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کے لئے ہر ممکنہ کوشش بروئے کار لائیں۔حکومت کی ذمہ داری ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لئے دیگر مسلمان حکومتوں کے ساتھ مل کر فوری جنگ بندی کے لئے سفارتکاری کرے اور غزہ میں جنگ بندی کو یقینی بنائے۔ حکومت کو چاہئیے کہ پاکستان میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے ملک دشمن عناصر کے خلاف بھی کاروائی کرے جو ملک کے اندر رہتے ہوئے وطن کی جڑوں اور نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی گھنائونی سازش میں مصروف ہیں۔
پس اب غزہ کے ساتھ یہ جذبہ اور یکجہتی فی الوقتی نہ ہو بلکہ غزہ پر جاری جارحیت کے خاتمہ تک بغیر کسی تعطل کے جاری رہنی چاہئیے۔