غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کی پٹی پر قبضے اور اس کے باشندوں کو ملک بدر کرنے کی متنازع تجویز پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ایسے اقدامات بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہیں۔
ایک سرکاری پریس بیان جس کی ایک نقل ’مرکزاطلاعات فلسطین‘کو موصول ہوئی ہے۔ بیان میں وولکرترک نے زور دیا کہ “حق خود ارادیت بین الاقوامی قانون کا ایک بنیادی اصول ہے۔ تمام ریاستوں کو اس کا احترام اور تحفظ کرنا چاہیے”۔
انہوں نے اس حوالے سےبین الاقوامی عدالت انصاف کے حالیہ فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عالمی عدالت انصاف فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کرچکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ “مقبوضہ علاقوں سے آبادی کی جبری منتقلی یا بڑے پیمانے پر ملک بدری کی کوئی بھی شکل بین الاقوامی انسانی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے”۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی قانون 1949 ءکے جنیوا کنونشنز کے تحت مقبوضہ علاقوں سے آبادیوں کی جبری منتقلی پر پابندی لگاتا ہے۔ یہ اصول بین الاقوامی انسانی قانون کا سنگ بنیاد ہے۔
چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 میں کہا گیا ہے کہ قابض طاقت “اپنے زیر تسلط شہری آبادی کے کچھ حصوں کو علاقے میں جلاوطن یا منتقل نہیں کرے گی اور نہ ہی وہ مقبوضہ علاقے کی آبادی کو زبردستی دوسرے علاقوں میں منتقل کرے گی۔”
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے سربراہ نے اسرائیل میں جنگ بندی کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے یرغمالیوں کو رہا کیا جائے۔
اقوام متحدہ کے اہلکار کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب غزہ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بارے میں عرب ممالک اور بین الاقوامی خدشات بڑھ رہے ہیں۔ کیونکہ اسی طرح کی تجاویز کو اس سے قبل اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔