Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

اسرائیل خطرناک استعماری ایجنڈے پر عمل پیرا ہے:یواین رپورٹ کی تفصیلات

غزہ    (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسکا البانیز نے اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضہ محض زمین ہتھیانے کا منصوبہ نہیں رہا، بلکہ یہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا ایک ظالمانہ، منافع بخش اور نسل کشی پر مبنی منصوبہ بن چکا ہے، جس میں بین الاقوامی ادارے اور کمپنیاں ملوث ہیں۔

یہ رپورٹ انسانی حقوق کونسل کے انسٹھویں اجلاس میں پیش کی گئی، جو سولہ جون سے گیارہ جولائی سنہ2025ء تک جاری رہےگا۔ رپورٹ کا عنوان ’’قبضے کی معیشت سے نسل کشی کی معیشت تک‘‘ رکھا گیا ہے۔ یہ صرف مظالم کی فہرست نہیں بلکہ ایک مکمل سرمایہ دارانہ نظام کی تشریح ہے، جو فلسطینیوں کی نسل کشی کو منافع بخش صنعت میں بدل چکا ہے۔

قابض اسرائیل کا نسل پرست سامراجی سرمایہ دارانہ نظام

رپورٹ کے مطابق قابض اسرائیل نے ایک ایسی نسل پرست سامراجی سرمایہ دارانہ حکمت عملی اپنائی ہے جس میں زمین پر قبضہ، فلسطینیوں کی جبری بے دخلی، ان کی جگہ آبادکاری اور جغرافیائی کنٹرول کو ایک منافع بخش کاروبار میں ڈھال دیا گیا ہے۔ شروع میں صہیونی منصوبے کے تحت قائم کردہ ادارے جیسے کہ ’’یہودی قومی فنڈ‘‘ فلسطینی زمینیں خرید کر مقامی آبادی کو بے دخل کرتے رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ نظام 371 سے زائد غیر قانونی بستیوں اور فوجی چوکیوں پر مشتمل ایک منظم استحصالی نیٹ ورک میں تبدیل ہو چکا ہے، جسے عالمی سطح پر کئی کمپنیوں، سرمایہ کار اداروں، اور یونیورسٹیوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔

اکتوبر سنہ2023ء جب قبضہ نسل کشی میں بدل گیا

رپورٹ واضح کرتی ہے کہ قابض اسرائیل کے جرائم میں ایک سنگین تبدیلی اکتوبر سنہ2023ء میں اس وقت آئی، جب غزہ پر قیامت خیز حملے شروع کیے گئے۔ اس ایک برس سے بھی کم عرصے میں قابض اسرائیلی فوج نے 85 ہزار ٹن بم گرا کر 179,411 سے زائد فلسطینیوں کو شہید یا زخمی کر دیا۔ غزہ کی 70 فیصد عمارتیں راکھ میں بدل دی گئیں، جب کہ 81 فیصد زرعی زمینیں تباہ کر دی گئیں۔

یہ درندگی کسی اتفاق یا وقتی ردعمل کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی معاشی و عسکری پالیسی کا حصہ ہے، جہاں نئے ہتھیاروں کی آزمائش میدان جنگ میں کی جاتی ہے، تاکہ انہیں بعد میں ’’میدانی تجربہ شدہ‘‘ کے طور پر بیچا جا سکے۔

عالمی کمپنیاں: فلسطینی نسل کشی کی خاموش شریک

رپورٹ تفصیل سے بیان کرتی ہے کہ فلسطین میں قتل و غارت کا یہ بازار محض قابض اسرائیل کے سکیورٹی اداروں کا عمل نہیں، بلکہ ایک منافع بخش تجارتی منصوبہ ہے جس میں دنیا کی بڑی کمپنیوں کا فعال کردار ہے۔ ان میں ہتھیار بنانے والی کمپنیاں جیسے Elbit Systems، Lockheed Martin اور IAI شامل ہیں، جب کہ Microsoft، Amazon، Google اور Palantir جیسی ٹیکنالوجی کمپنیاں قابض اسرائیل کو نگران نظام، مصنوعی ذہانت اور بایومیٹرک ٹیکنالوجی فراہم کرتی ہیں۔

بھاری مشینری بنانے والی کمپنیاں جیسے Caterpillar، Volvo اور Hyundai فلسطینی گھروں کی مسماری میں معاون ہیں، جب کہ Chevron، BP اور Glencore جیسی توانائی کمپنیاں قبضے کو ایندھن فراہم کرتی ہیں۔ معروف تعلیمی ادارے جیسے MIT، TUM اور Edinburgh بھی اس منصوبے کا حصہ ہیں۔

بنیادی ڈھانچہ، نسل کشی کا ہتھیار

رپورٹ بتاتی ہے کہ کس طرح بنیادی سہولیات جیسے پانی، بجلی، ایندھن اور خوراک کو جنگی ہتھیار بنا دیا گیا ہے۔ غزہ میں بجلی، پانی اور ایندھن بند کر کے ہسپتالوں، پانی کی صفائی کے مراکز اور کھیتوں کو ناکارہ کر دیا گیا ہے۔ استعماری زرعی منصوبے کے ذریعے فلسطینی زمینوں پر قبضہ کر لیا گیا ہے، اور فلسطینیوں کو پانی اور روزگار سے محروم کر دیا گیا ہے۔

سیاحت کو بھی اس نسل کشی کے منصوبے میں شامل کر لیا گیا ہے، جہاں Airbnb اور Booking.com جیسی کمپنیاں غیر قانونی بستیوں کو معمول کے سیاحتی مقامات کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔ دنیا بھر کی مارکیٹوں میں انہی بستیوں کی پیداوار فروخت ہو رہی ہے، جس سے ان غیر قانونی قبضوں کو بالواسطہ قانونی حیثیت دی جا رہی ہے۔

سرمایہ کاری کی آڑ میں نسل کشی کی مالی اعانت

رپورٹ کے مطابق نسل کشی کی مالی اعانت صرف قابض اسرائیلی حکومت تک محدود نہیں بلکہ عالمی مالیاتی ادارے بھی اس میں شریک ہیں۔ اکتوبر سنہ2023ء کے بعد سے قابض اسرائیل نے 13 ارب ڈالر سے زائد کے سرکاری بانڈز جاری کیے جن میں BlackRock، Vanguard، اور BNP Paribas جیسے اداروں نے سرمایہ کاری کی، حالانکہ یہ بات واضح تھی کہ یہ رقوم قابض اسرائیلی فوج کے جرائم میں استعمال ہوں گی۔

تل ابیب اسٹاک ایکسچینج کا انڈیکس 179 فیصد بڑھ چکا ہے اور 157 ارب ڈالر سے زائد منافع ہوا، جب کہ فلسطینی عوام مسلسل محاصرے، بھوک، بمباری اور شہادت کا سامنا کر رہے ہیں۔ رپورٹ ان اداروں کی منافقت بے نقاب کرتی ہے، جو بظاہر سماجی اور ماحولیاتی انصاف کے علمبردار بنتے ہیں، لیکن حقیقت میں نسل کشی میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

قانونی ذمہ داری اور فوری احتساب کا مطالبہ

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق رہنما اصولوں کے مطابق، جو کمپنیاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں شریک ہوں یا انہیں فروغ دیں، ان پر قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ بعض عدالتی نظاموں میں یہ مجرمانہ ذمہ داری بنتی ہے، جیسا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمن صنعت کاروں کے خلاف کارروائی کی گئی تھی۔

رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ صرف کاغذی سطح پر ’’دیانت داری‘‘ کا اظہار کافی نہیں، بلکہ قابض اسرائیل سے ہر قسم کے تجارتی تعلقات کا فوری اور غیر مشروط خاتمہ ناگزیر ہے، اور ان کمپنیوں کے ذمہ داران کو قانونی اور اخلاقی طور پر کٹہرے میں لانا ہوگا۔

نسل کشی کو منافع سے علیحدہ کرنا ناگزیر ہو چکا ہے

رپورٹ واضح کرتی ہے کہ فلسطین میں جاری قتل عام محض عالمی نظام کا ’’انحراف‘‘ نہیں بلکہ اس کا منطقی نتیجہ ہے، جہاں سرمایہ داری کو انسانی جان پر ترجیح حاصل ہو گئی ہے۔ انسانی حقوق، سیاسی انصاف اور معاشی نظام میں اصلاح اسی وقت ممکن ہے جب نسل کشی پر مبنی منافع کو توڑا جائے۔ اس کے لیے قانونی احتساب، معاشی بائیکاٹ اور سرمایہ و انسانی حقوق کے تعلق کو ازسرنو مرتب کرنا لازم ہے۔

رپورٹ کے الفاظ میں “جب زندگی اور موت کا فیصلہ سرمایہ کاروں کے ہاتھ میں آ جائے، تو جرائم بازار کے اشارے بن جاتے ہیں، اور انسانیت منافع کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ نام نہاد صہیونی فاشسٹ ریاست فلسطینی قوم کے ساتھ کررہی ہے”۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan