نیویارک (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی “انروا” نے ایک دل دہلا دینے والا انکشاف کیا ہے کہ گذشتہ بیس ماہ کے دوران غزہ میں پچاس ہزار سے زائد فلسطینی بچے یا تو شہید کر دیے گئے یا شدید زخمی ہو چکے ہیں۔ انسانی تاریخ کے سب سے بھیانک اور سنگ دلانہ مظالم میں سے یہ ایک مظہر ہے جہاں معصوم بچپن کو ملبے تلے دفن کر دیا گیا، اور زندگی کی ہنستی مسکاتی آوازیں گولیوں، بموں اور آنسوؤں میں گم ہو گئیں۔
“انروا” کا کہنا ہے کہ غزہ میں عام شہریوں کا قتل عام جاری ہے، جن میں معصوم بچے، طبی عملے کے افراد، صحافی اور امدادی کارکن سبھی شامل ہیں۔ قابض اسرائیل کی طرف سے جاری بمباری اور بے رحمانہ جنگی کارروائیاں ہر دن نئے زخم، نئی لاشیں اور مزید تباہی لے کر آتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال “یونیسف” کے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے علاقائی ڈائریکٹر ایڈورڈ بیگبیدر نے اس المیے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اکتوبر 2023ء سے اب تک غزہ میں پچاس ہزار سے زائد بچے شہید یا زخمی کیے جا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف پچھلے ہفتے کے اختتام پر 72 گھنٹوں کے دوران لی گئی تصاویر نے بچوں پر ہونے والے ظلم کی وہ ہولناک قیمت دکھا دی ہے، جو تصور سے بھی باہر ہے۔
گذشتہ جمعہ کے روز خان یونس میں النجار خاندان کے گھر پر بمباری کے بعد ملبے سے جلی ہوئی، کٹی پھٹی ننھی لاشیں نکالی گئیں۔ ان میں دس ایسے بہن بھائی شامل تھے جن کی عمریں بارہ سال سے بھی کم تھیں۔ صرف ایک بچہ بچ سکا، وہ بھی شدید زخمی حالت میں۔ کیا دنیا کو یہ دکھانے کے لیے اور کتنی لاشیں درکار ہیں؟
بیگبیدر نے کہا کہ جو کچھ غزہ میں بچوں کے ساتھ ہو رہا ہے، وہ ایسے مظالم کی ایک لامتناہی لڑی ہے، جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے بتایا کہ پیر کے روز غزہ شہر کے ایک سکول پر حملے میں 31 افراد شہید ہوئے، جن میں 18 بچے شامل تھے۔ تصاویر میں ایک چھوٹا بچہ جلتے ہوئے سکول کی دیواروں کے بیچ قید دکھائی دیا، جو مدد کو ترستا رہا۔
انہوں نے کہا کہ ان بچوں کی زندگیوں کو محض اعداد و شمار میں گننا انسانیت کی توہین ہے۔ یہ وہ بچے ہیں جو روز زندہ جلتے ہیں، گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں، بھوک سے تڑپتے ہیں۔ اپنے گھروں، سکولوں، ہسپتالوں اور خوابوں سے محروم کیے جا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ براہ راست قتل، امداد کی راہ میں رکاوٹ، بھوک، جبری ہجرت اور بنیادی ڈھانچے کی بربادی جیسے سنگین جرائم کی طویل فہرست ہے۔
“یونیسف” کے مطابق صرف 18 مارچ 2025ء کو جنگ بندی ختم ہونے کے بعد سے اب تک 1309 بچے شہید کیے جا چکے ہیں، جب کہ 3738 شدید زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ صرف اعداد نہیں، یہ ہر نمبر ایک کٹا پھٹا جسم، ایک اجڑا ہوا ماں باپ، ایک ٹوٹا ہوا جھولا، ایک سسکتی ہوئی داستان ہے۔