Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

فرانسیسی بندرگاہ کے عملے کا عظیم اقدام، قابض اسرائیل کو اسلحہ بھیجنے سے انکار

پیرس (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) فرانس کے جنوب میں واقع “مارسیلیہ فوس” کی بندرگاہ کے باہمت عملے نے ایک ایسا فیصلہ کیا ہے جو نہ صرف انسانیت کا وقار بلند کرتا ہے بلکہ غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ یکجہتی کی ایک قابلِ تقلید مثال بھی قائم کرتا ہے۔ ان مزدوروں نے ایک ایسی کنٹینر کی لوڈنگ سے صاف انکار کر دیا جس میں رائفلوں کے پرزے موجود تھے اور جنہیں قابض اسرائیل کے بندرگاہ حیفا روانہ کیا جانا تھا۔

فرانسیسی محنت کشوں کی سب سے بڑی یونین “سی جی ٹی” کے تحت بندرگاہی مزدوروں کی نمائندہ تنظیم نے اس اقدام کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اسلحہ ایک یورپی کمپنی “یورولِنکس” نے تیار کیا تھا اور اسے بحیرہ روم کے ایک بحری روٹ سے اسرائیلی بندرگاہ پہنچایا جانا تھا۔ مگر جب بندرگاہی مزدوروں کو اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے فوری طور پر اس کنٹینر کی شناخت کی، اسے علیحدہ کر دیا اور صاف اعلان کیا کہ وہ جنگی سامان کو دشمن کے حوالے نہیں کریں گے۔

یونین کے سیکرٹری جنرل کرسٹوف کلاریٹ نے فرانسیسی خبررساں ایجنسی کو بتایا کہ جب مزدور کسی چیز کو لوڈ کرنے سے انکار کر دیں، تو قانوناً کوئی دوسرا اس کا متبادل نہیں بن سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم امن کے ساتھ ہیں اور ہر جنگ کے خلاف ہیں”۔

قابض اسرائیل کی نسل کشی کو ہوا دینے والے اسلحہ کی ترسیل سے انکار کا یہ اقدام بائیں بازو کے حلقوں میں خوب سراہا گیا۔ حزبِ مخالف جماعت “فرانس انبوکس” کے رکنِ پارلیمنٹ مانوئل بومبار نے سوشل میڈیا پر لکھا، “مارسیلیہ فوس کے مزدوروں کو سلام! دنیا بھر میں نسل کشی کے خلاف جدوجہد منظم ہو رہی ہے”۔

اسی جماعت کے قائد ژاں لوک میلانشوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان ہتھیاروں پر فوری پابندی عائد کی جائے جو غزہ میں جاری نسل کشی میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔

تحقیقی ویب سائٹ “دِسکلوز” کے مطابق اس سے قبل بھی ایسی دو کھیپیں 3 اپریل اور 22 مئی کو فوس سور میر سے حیفا منتقل کی جا چکی ہیں۔ ان میں وہی خطرناک دھاتی چینیں شامل تھیں جو رائفلوں کے فائرنگ میکانزم میں استعمال ہوتی ہیں، اور جنہیں بھاری مشین گنوں سے منسلک کیا جاتا ہے۔ انہی ہتھیاروں سے قابض اسرائیل غزہ کے نہتے شہریوں، بچوں اور خواتین کو بے دردی سے نشانہ بناتا ہے۔

مارچ میں یہی انکشاف “مارساکٹو” نامی فرانسیسی ویب سائٹ نے بھی کیا تھا کہ کمپنی “یورولِنکس” ایسے آلات تیار کر رہی ہے جو قابض اسرائیل کی درندگی میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان رپورٹس کے بعد فرانس کے وزیر برائے افواج سیباسٹین لوکورنو نے محض اتنا کہا کہ اسرائیل ان پرزوں کو صرف “ری-ایکسپورٹ” کر سکتا ہے، گویا وہ حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہوں۔

یہ سب کچھ اُس پس منظر میں ہو رہا ہے جب قابض اسرائیل نے امریکہ کے بھرپور عسکری، مالی اور سفارتی تعاون سے 7 اکتوبر سنہ2023ء سے غزہ پر بدترین نسل کشی کی جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ اس جنگ میں اب تک 1 لاکھ 77 ہزار سے زائد فلسطینی یا تو شہید ہو چکے ہیں یا شدید زخمی ہیں، جن میں اکثریت معصوم بچوں اور نہتی خواتین کی ہے۔ مزید 11 ہزار سے زائد فلسطینی لاپتا ہیں جن کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ زندہ ہیں یا زمین کے نیچے دفن کر دیے گئے۔

ایسے میں مارسیلیہ فوس کے مزدوروں کا یہ عمل محض ایک صنعتی فیصلے کی نہیں بلکہ ایک اخلاقی بغاوت کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ دنیا کے تمام حریت پسند انسانوں کے لیے ایک صدا ہے کہ ظلم کے خلاف خاموشی، ظلم کا ساتھ ہے۔ اور جس نے ایک مظلوم کی مدد سے انکار کیا، اس نے دراصل ظالم کی پشت پناہی کی۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan