جنیوا (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) فلسطین کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیس نے فرانس کی طرف سے کیےگئے ان دعووں کو مسترد کر دیا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو بین الاقوامی قانون کے تحت استثنیٰ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
البانیس نے پریس بیانات میں وضاحت کی کہ اس طرح کے استثنیٰ کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ فرانس کا یہ دعویٰ ہے کہ نیتن یاہو کو استثنیٰ حاصل ہے بے بنیاد ہے۔ ایسے دعوے کو قانونی طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ موقف “ناقابل عمل ” ہے۔
انہوں نے سوڈان کے سابق صدر عمر البشیر کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ استثنیٰ کا معاملہ بین الاقوامی عدالت نے پہلے ہی حل کیا تھا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے جاری کردہ وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد کو روکنے کی کوئی بھی کوشش روم کے آئین کے آرٹیکل 70 کی صریح خلاف ورزی ہوگی۔
البانیس نے نیتن یاہو اور روسی صدر ولادیمیر پوتین کے لیے گرفتاری کے وارنٹ سے نمٹنے میں فرانس کے “متضاد نقطہ نظر” پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ روسی صدر کو گرفتار کر نے کی حمایت کرنا اور نیتن یاھو کو جنگی جرائم کے مقدمات سے بچانا “دوہرے معیارات” کی عکاسی کرتا ہے۔
فرانسیسی وزیر اعظم مشیل بارنیئر نے اس سے قبل پارلیمنٹ کی جنرل اسمبلی میں کہا تھا کہ روم کا آئین بین الاقوامی فوجداری عدالت کے ساتھ مکمل تعاون کا متقاضی ہے لیکن ساتھ ہی اس میں ایسے اقدامات نہ کرنے کی ضرورت بھی بیان کی گئی ہے جو متعلقہ بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں سے متصادم ہوں۔ ایک تاریخی نظیر میں بین الاقوامی فوجداری عدالت نے “نیتن یاہو” اور “گیلنٹ” کے خلاف گرفتاری کے دو وارنٹ جاری کیے، جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ عدالت کے پاس نیتن یاھو اور یوآو گلینٹ کے فلسطینیوں کے خلاف منظم جنگی جرائم کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔ عدالت نے کہا کہ اسرائیلی لیڈرشپ غزہ میں بھوک اور قحط کو ایک جنگی حربے کے طورپر استعمال کررہی ہے۔