غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) کلب برائے اسیران کے دفتر نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ کے وہ فلسطینی اسیران جو “طوفان الاحرار سوم” معاہدے کے تحت قابض اسرائیل کی جیلوں سے رہائی پائے ہیں، انتہائی المناک حالت میں ہیں۔ ان میں بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جن کے جسم کمزوری سے نڈھال ہیں، بعض کے پاؤں تک کٹ چکے ہیں، کئی وہیل چیئرز پر مجبورِ حرکت ہیں اور سب کے جسموں پر سالہا سال کی اذیتوں اور تشدد کے واضح نشانات ثبت ہیں۔
کلب برائے اسیران کے بیان میں بتایا گیا کہ ان مظلوم قیدیوں پر رہائی سے قبل مسلسل چار روز تک تشدد کیا گیا۔ قابض اسرائیلی جیلروں نے اسے رہائی سے قبل دیا جانے والا “آخری تحفہ” قرار دیا۔ ان کے نحیف جسموں پر نیل، سوجن اور زخموں کے نشانات نمایاں ہیں اور انہیں ایک لمحے کے لیے بھی دھمکیوں اور مارپیٹ کے بغیر نہیں چھوڑا گیا۔
بیان کے مطابق اسیرانِ غزہ کو ان کے بچوں اور بیویوں کی جان سے براہِ راست دھمکیاں دی گئیں۔ جیلر ان سے کہتے رہے کہ ان کے اہلِ خانہ جنگ کے دوران مارے جا چکے ہیں۔
ایک اسیر نے بتایا کہ جیل انتظامیہ اسے جان بوجھ کر اسی جگہ مارتے تھی جہاں پہلے ہی زخم تھا، حتیٰ کہ اس کا بازو پانچ بار ٹوٹ چکا ہے۔ یہ واقعہ اس درندگی کی ایک جھلک ہے جو قابض اسرائیل کے ہاتھوں ان قیدیوں نے سہی۔
قابض اسرائیلی جیل اتھارٹی نے پیر کے روز سینکڑوں فلسطینی اسیران کو رہا کیا۔ یہ رہائی حماس اور قابض اسرائیل کے درمیان طے پانے والے جنگ بندی اور اسیران کے تبادلے کے معاہدے کا حصہ تھی۔ اس سے قبل القسام بریگیڈز نے غزہ اور خان یونس میں 20 اسرائیلی اسیران کو زندہ حالت میں عالمی ریڈ کراس کے حوالے کیا تھا۔
غزہ، مغربی کنارہ اور القدس میں فلسطینی عوام نے اپنے پیاروں کی رہائی کا جشن خوشی اور آنسوؤں کے امتزاج میں منایا۔ یہ لمحہ ان دلوں کے لیے کسی مرہم سے کم نہ تھا جو دو برس تک غزہ میں قابض اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ نسل کشی، اجتماعی قتل عام اور قحط کی تباہ کاریوں کے سائے میں جیتے رہے۔
اس رہائی کے تحت غزہ کے 1716 فلسطینی اسیران آزاد کیے گئے، جب کہ مغربی کنارے اور القدس سے 250 ایسے اسیران کو رہا کیا گیا جنہیں عمر قید کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔ کچھ دیگر اسیران کو بیرونِ ملک منتقل کیے جانے کا عمل بھی شامل تھا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ قابض اسرائیلی جیل انتظامیہ نے غزہ کے اسیران کو “غیر قانونی جنگجو” قرار دیا تھا۔ اس زمرے میں 2,673 فلسطینی شامل ہیں، اس میں وہ تمام افراد شامل نہیں جو قابض فوج کے زیرِ انتظام حراستی کیمپوں میں قید ہیں۔ اسی زمرے میں لبنان اور شام کے چند عرب اسیران کو بھی رکھا گیا ہے۔
یہ تمام واقعات قابض اسرائیل کے ظلم و ستم، درندگی اور انسانی حقوق کی کھلی پامالی کی بھیانک تصویر پیش کرتے ہیں۔ یہ وہی ریاست ہے جو “گریٹر اسرائیل” کے خواب میں انسانیت کے بنیادی اقدار کو روند چکی ہے۔