غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اگرچہ توپوں کی گھن گرج رک چکی ہے اور آسمانِ غزہ میں اب لڑاکا طیاروں کی گونج نہیں سنائی دیتی، مگر دراصل جنگ اب بھی ختم نہیں ہوئی۔ اس کی لپیٹ میں آئے لوگوں کے دل آج بھی جلتے ملبے کی مانند دہک رہے ہیں۔
قابض اسرائیل کی مسلط کردہ اس ہولناک جنگ نے صرف عمارتوں اور گھروں کو ملبہ نہیں بنایا بلکہ زندگی کے ہر گوشے کو چھو لیا ہے۔ حتیٰ کہ وہ لمحے بھی جنہیں اہلِ غزہ اپنی زندگی کی واحد خوشی سمجھتے تھے شادی بیاہ کی تقریبات اب غم و اندوہ کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔
غزہ کی گلیوں میں اگر کوئی دلہن سفید لباس میں دکھائی دے بھی جائے تو اس کے قدم ہچکچاتے محسوس ہوتے ہیں، وہ کسی چھوٹی سی بوسیدہ عمارت یا اپنے معمولی سے گھر کی طرف بڑھ رہی ہوتی ہے۔ نہ کاروں کا جلوس، نہ ڈھول تاشے، نہ فضا میں آتش بازی کی روشنی۔ منظر سادہ ہے مگر معنی گہرے ۔ یہاں ہر مسکراہٹ ایک مزاحمت ہے، ہر خوشی ایک اعلانِ استقامت۔
شہری محمد عوض جس نے جنگ ختم ہونے کے چند دن بعد شادی کی کہتا ہے “دل نہیں مانا کہ خوشی مناؤں، میرے پڑوسی اپنے بچوں کو کھو چکے ہیں، سارا علاقہ سوگ میں ہے۔ بس اپنے گھر والوں کے ساتھ چھوٹی سی تقریب کی، بغیر موسیقی، بغیر شور شرابے کے۔اہم یہ ہے کہ نئی زندگی شروع کریں، بھولیں نہیں، مگر رکیں بھی نہیں”۔
محمد کی یہ باتیں آج کے ہر غزہ کے باشندے کی کیفیت بیان کرتی ہیں۔ خوشیاں مفقود نہیں ہوئیں مگر ان کی صورت بدل گئی ہے۔ پہلے جہاں غزہ میں شادی بیاہ سینکڑوں افراد کے اجتماع اور کئی دنوں کے جشن کا موقع ہوتا تھا، اب وہ محض سادہ گھریلو محفلوں میں بدل گئے ہیں۔ چائے اور مٹھائی خاموشی سے پیش کی جاتی ہے، گانوں کی جگہ نرم انقلابی نغمے سنائے جاتے ہیں۔
ام یزن جن کی بیٹی کا حال ہی میں نکاح ہوا، بتاتی ہیں”ہم نے بیٹی سے کہا ’شاد ی ہال‘ کی ضرورت نہیں، لوگ خوش نہیں، سب دل شکستہ ہیں۔ گھر میں ہی سادگی سے تقریب کی، فستان وہی تھا مگر ماحول بالکل مختلف”۔
غزہ کے اس حالیہ جنگ نے کوئی گھر خالی نہیں چھوڑا۔ ہر خاندان کسی نہ کسی دکھ کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ سینکڑوں گھرانے اپنے پیاروں سے محروم، ہزاروں زخمی ابھی تک درد سے کراہ رہے ہیں۔ ایسے میں کوئی کیسے شور و ہنگامے والی شادی منائے، جب چند قدم کے فاصلے پر کسی ماں کا بیٹا مٹی تلے سو رہا ہو؟ یہی اخلاقی احساس اہلِ غزہ کو اپنے طریقۂ اظہارِ خوشی پر ازسرنو غور کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔
سماجی ماہر عبداللہ محمود کے مطابق “غزہ کا معاشرہ اجتماعی سوگ کی کیفیت میں ہے۔ خوشی کے رسم و رواج بدل گئے ہیں کیونکہ وہ عوام کے عمومی مزاج اور نفسیاتی حالت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اب خوشی کا مفہوم بھی سادہ ہو گیا ہے۔ شادی ایک سماجی ذمہ داری بن گئی ہے، کوئی تہوار نہیں”۔
تاہم اس اداسی کے بیچ امید کی ایک کرن بھی ہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ زندگی سے ہار نہیں مانیں گے۔ ان کے نزدیک زندگی کا تسلسل خود ایک مزاحمت ہے۔ دلہن اسراء ابو دیہ نے کہاکہ “ہم ماضی کے ملبے میں نہیں جینا چاہتے، آگے بڑھنا ہے۔ اب خوشی صرف ذاتی موقع نہیں بلکہ قومی موقف ہے”۔
یہی وہ روح ہے جو غزہ کو ہمیشہ منفرد بناتی ہے ۔ دکھ اور امید کا امتزاج۔ وہ شہر جو ہر بار ملبے سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے، اپنی زخم خوردہ روح کے باوجود جینا جانتا ہے۔ خوشیوں کی شکلیں بدل گئی ہیں مگر ان کا جوہر، زندگی پر اصرار، اب بھی ویسا ہی ہے۔
شام کے وقت جب غزہ کے پرانے محلوں سے کبھی کبھار مدھم زغارید کی آواز آتی ہے تو دل کہتا ہے کہ یہ آواز محض خوشی کی نہیں بلکہ زندگی کی ہے۔ یہ وہ نغمہ ہے جو کہتا ہے: یہ قوم جتنی بھی ٹوٹے، محبت، مسکراہٹ اور امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑتی۔