Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

غزہ کا نیا معاہدہ جلد ٹوٹنے کا شدید خدشہ :دی گارڈین

برطانوی اخبار ’دی گارڈین‘(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )  نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کا نیا معاہدہ کسی بھی وقت منہدم ہوسکتا ہے کیونکہ ماضی کے تجربات یہی بتاتے ہیں کہ قابض اسرائیلی فوج نے ہر جنگ بندی کے بعد نہتے شہریوں پر مزید تباہ کن حملے کیے۔

اخبار کے معروف تجزیہ کار بن رِیف نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ قابض حکومت کے سربراہ بنجمن نیتن یاھو نے یہ معاہدہ امن یا فلسطینیوں کے حقوق کے احترام کے جذبے سے نہیں بلکہ محض اپنی ذاتی سیاسی بقا کے لیے کیا ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ نیتن یاھو جو خود قابض اسرائیل میں سنگین بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا کر رہا ہے، اقتدار سے چمٹے رہنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، چاہے اسے اپنے اتحادی بدلنے پڑیں یا پالیسیوں میں مکمل الٹ پھیر کرنی پڑے۔ بن رِیف کے مطابق نیتن یاھو سیاسی بیانیے کو اپنے مفاد میں موڑنے میں مہارت رکھتا ہے اور ہمیشہ اپنے لیے کئی دروازے کھلے رکھتا ہے۔

تجزیہ نگار نے کہا کہ نیتن یاھو اس نئے معاہدے کو جنگ کے خاتمے کی جانب ایک قدم کے طور پر پیش کر رہا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس نے معاہدے کی شقوں کو مختلف مراحل میں تقسیم کر کے اپنے وعدوں سے بعد میں راہِ فرار اختیار کرنے کی راہ ہموار کر لی ہے۔ اس کے قریبی حلقے پہلے ہی “دوسرے مرحلے” کی اہمیت کو گھٹا چکے ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ معاہدہ محض اسیران کی رہائی تک محدود ہے۔

بن رِیف نے لکھا کہ بعض اوقات ایک خراب معاہدہ بھی کسی معاہدے کے نہ ہونے سے بہتر ہوتا ہے، مگر جب اس کے پس منظر میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانیہ کے سابق وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر جیسے کردار موجود ہوں تو یہ یقیناً ایک خطرناک اور نقصان دہ معاہدہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سب سے تشویشناک بات سرکاری بیانیے کی تبدیلی ہے۔ بدھ کی شب ٹرمپ کے بیان میں کہا گیا کہ جو طے پایا ہے وہ “پہلا مرحلہ” ہے، یہ وہی انداز ہے جو سنہ2017ء کے جنوری کے معاہدے میں اختیار کیا گیا تھا جسے قابض اسرائیل نے محض اپنے قیدی آزاد کرانے کے بعد دوبارہ جنگ چھیڑنے کے لیے استعمال کیا۔

بن رِیف نے لکھا کہ نیتن یاھو برسوں سے فلسطینی ریاست کے قیام کے ہر راستے کو مسدود کرتا آیا ہے۔ اس نے اقتدار کے دوام کے لیے مذہبی انتہا پسندوں سے گٹھ جوڑ بڑھایا۔ اکتوبر سنہ2023ء کے واقعات کے بعد جب اس کی مقبولیت گرنے لگی تو اس نے اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لیے غزہ پر ایک وحشیانہ جنگ مسلط کر دی جس کے اہداف شروع سے ہی غیر واضح تھے۔

اب جبکہ غزہ کو خالی کرانے کی نیتن یاھو کی سازش بری طرح ناکام ہو چکی ہے اور قابض اسرائیل عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے، وہ ایک بار پھر پالیسی بدل کر خود کو امن کا پیامبر ظاہر کرنے کی کوشش میں ہے تاکہ آنے والے انتخابات میں اپنے آپ کو “قومی نجات دہندہ” کے طور پر پیش کر سکے۔

تجزیہ نگار کے مطابق نیتن یاھو سمجھتا ہے کہ “غزہ میں فتح” کا اعلان اور جنگ کے خاتمے کا دکھاوا اسے انتخابات میں زیادہ فائدہ دے سکتا ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ جنگ جاری رکھے۔ اگر اس کے دائیں بازو کے انتہا پسند اتحادی ساتھ نہ بھی رہیں تو وہ پرانے سیاسی شراکت داروں کے ساتھ “قومی ذمہ داری” کے نام پر نیا اتحاد تشکیل دے سکتا ہے۔

اگرچہ جنگ بندی کا معاہدہ بظاہر امید کی ایک کرن دکھاتا ہے مگر بن رِیف نے سخت تنبیہ کی کہ ماضی کی طرح یہ معاہدہ بھی جلد ٹوٹ سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ عالمی برادری صرف معاہدے پر عملدرآمد کی نگرانی نہ کرے بلکہ قابض اسرائیل کے مسلسل جرائم، خصوصاً مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے جبری انخلا کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔

بن رِیف نے اپنے مضمون کے اختتام پر لکھا کہ صرف جنگ کا رک جانا کافی نہیں۔ اصل ضرورت انصاف، احتساب، غزہ کی تعمیر نو اور فلسطینی قوم کو آزادی دلانے کی ہے۔ اگر یہ اہداف حاصل نہ ہوئے تو امن محض تصویری بیانات تک محدود رہ جائے گا۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan